Two
1:20pm
”میں چائے پینے آیا ہوں آپ کے ساتھ۔” سامنے کرسی پر بیٹھے ہوئے سیشن جج رضوان قریشی نے عمر سے کہا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس کے کمرے میں آیا تھا۔ اس کا آفس عمر کے آفس سے کچھ فاصلے پر تھا اور وہ وقتاً فوقتاً عمر کے دفتر میں آتا جاتا رہتا۔ دونوں چائے اکثر ساتھ ہی پیتے۔
عمر نے اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے گھنٹی بجا کر اردلی کو بلوایا اور چائے لانے کے لیے کہا۔
”چلیں آج آخری بار آپ کو چائے پلوا دیتے ہیں۔ اس کے بعد تو پھر موقع نہیں آئے گا۔” عمر نے اردلی کے جانے کے بعد رضوان قریشی سے کہا۔
”کیوں ابھی تو آپ چند دن اور ہیں یہاں۔”
”ہاں مگر یہاں کچہری میں آج میرا آخری دن ہے۔ پرسوں سعود ہمدانی چارج لے رہے ہیں۔ کل میں یہاں نہیں آؤں گا۔ کچھ courtsey calls میں مصروف رہوں گا۔” عمر نے تفصیل بتائی۔
”بہت اچھا وقت گزرا عمر جہانگیر صاحب آپ کے ساتھ…اچھی گپ شپ ہو جاتی تھی۔”
”ہاں مگر دس پندرہ منٹ کی۔۔۔” عمر نے مسکرا کر کہا۔
”چلیں دس پندرہ منٹ ہی سہی مگر اچھا ٹائم گزرتا تھا۔” رضوان قریشی بھی مسکرایا۔
”اس میں کوئی شک نہیں۔” عمر نے سر ہلاتے ہوئے ٹیبل پر پڑی ہوئی چیزوں کو سمیٹنا شروع کر دیا۔
”لاہور جانے سے پہلے میری طرف ایک چکر لگائیں ، کھانا کھاتے ہیں اکٹھے۔” رضوان قریشی نے آفر کی۔
”ضرور کیوں نہیں مگر کھانا کھانا ذرا مشکل ہے، ان دو تین دن کے لئے خاصی کمٹمنٹس ہو چکی ہیں میری مگر جو کچھ آفیشل فیرویل اور ڈنرز ہو رہے ہیں، اس میں تو آپ بھی انوائیٹڈ ہوں گے، اکٹھا کھانے کا موقع تو وہاں بھی مل جائے گا۔” عمر جہانگیر نے کہا۔
”آفیشل ڈنر میں اور گھر پر ہونے والی دعوت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔”
”پھر کبھی سہی رضوان صاحب! بعد میں ملاقات تو رہے گی آپ سے۔” عمر نے کہا۔
”کہاں میل ملاقات رہے گی…آپ تو فوری چھٹی پر بیرون ملک جا رہے ہیں۔” رضوان قریشی نے یاد دہانی کروائی۔
”ہاں مگر پاکستا ن آتا جاتا رہوں گا اور پھر دوبارہ جوائن تو کرنا ہی ہے۔”
”تب کیا پتہ ہم کہاں ہوں…آپ کہاں ہوں۔”
”جہاں بھی ہوں گا میں آپ سے رابطہ رکھوں گا۔” عمر نے کہا۔
اگلے پندرہ منٹ اس نے رضوان قریشی کے ساتھ چائے اور سگریٹ پیتے ہوئے گزارے۔ پھر رضوان قریشی بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس سے مل کر آفس سے نکل گیا۔
اس کے جانے کے بعد عمر نے اگلے پندرہ منٹ وہاں موجود عملے کے ساتھ الوداعی بات چیت کی۔ اپنے آفس میں موجود اپنی چیزوں کو وہ پہلے ہی اپنی گاڑی میں بھجوا چکا تھا۔
٭٭٭