Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

امر بیل ۔قسط۔ ۲۷۔ عمیرہ احمد


باب 55

”علیزہ بی بی! آپ ہاسپٹل چلی جائیں۔” وہ گاڑی پورچ میں روک کر ابھی نیچے اتر ہی رہی تھی جب مرید بابا نے اس سے کہا۔
”ہاسپٹل کس لیے؟” اس نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔
”عباس صاحب کا فون آیا تھا، انہوں نے کہا ہے۔” مرید بابا نے بتایا۔
”عباس کا…مگر کیوں؟” اس بار اسے تشویش ہوئی۔
”بس آپ وہاں چلی جائیں۔” مرید بابا نے کہا۔
”نانو اور ممی کہاں ہیں؟” علیزہ پریشان ہو گئی۔
”وہ لوگ شاپنگ کے لیے گئے ہیں۔ عباس صاحب بھی ان کا پوچھ رہے تھے پھر انہوں نے کہا کہ انہیں بھی پیغام دے دیں اور آپ کو بھی…وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ آپ اپنا موبائل آن رکھیں اور ان سے رابطہ کریں۔” مرید بابا نے کہا۔
”کون سے ہاسپٹل؟” علیزہ نے گاڑی میں دوبارہ بیٹھتے ہوئے کہا۔
”سروسز ہاسپٹل۔” مرید بابا نے کہا۔
”آپ نے ان سے پوچھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے نا؟”




”جی میں نے پوچھا…وہ کہہ رہے تھے، کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہے؟”
”کس کا؟”
”عمر صاحب کا۔” اس کے دل کی ایک دھڑکن مس ہوئی۔
”عمر کا…وہ ٹھیک تو ہے؟”
”آپ ان سے بات کر لیں۔ انہوں نے جلدی فون بند کر دیا تھا۔” مرید بابا نے کہا۔
علیزہ نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر بیگ سے اپنا موبائل نکالا اور اسے آن کرتے ہوئے عباس کے موبائل پر کال کی۔ لائن مصروف تھی۔ پریشانی کے عالم میں اس نے اپنی گاڑی باہر نکال لی۔ راستے میں اس نے ایک بار پھر عباس کو فون کیا۔ لائن اب بھی مصروف تھی۔ دوسری بار کال کرنے کے بعد فون رکھ رہی تھی، جب دوسری طرف سے کوئی کال آنے لگی۔ اس نے دیکھا، وہ عباس کا نمبر تھا۔
”ہیلو عباس بھائی! عمر کو کیا ہوا ہے؟” اس نے کال ریسیو کرتے ہی کہا۔ دوسری طرف چند لمحوں کی خاموشی کے بعد عباس نے کہا۔
”تم کہاں ہو؟”
”میں سروسز کی طرف آرہی ہوں۔ ابھی گاڑی میں ہوں…عمر کو کیا ہوا ہے؟”
”کچھ نہیں ، معمولی سا ایکسیڈنٹ ہے، اب ٹھیک ہے، گھبرانے کی ضرورت نہیں، تم آرام سے ڈرائیو کرو…اپنی گاڑی میں آرہی ہو؟”
”ہاں۔”




”اور گرینی…؟”
”وہ میرے ساتھ نہیں ہے۔ شاپنگ کے لیے ممی کے ساتھ گئی ہیں۔”
”ٹھیک ہے، تم آجاؤ۔” وہ اب اسے اس گیٹ کے بارے میں بتا رہا تھا جہاں سے اسے آنا تھا۔
”میں سکیورٹی والوں کو تمہاری گاڑی کا نمبر دے دیتا ہوں، تمہیں روکیں گے نہیں۔” عباس نے کہہ کر فون بند کردیا۔ اس نے بے اختیار سکون کا سانس لیا۔
”اس کا مطلب ہے کہ عمر ٹھیک ہے۔”
مگر پھر اسے خیال آیا کہ پتا نہیں اسے کتنی چوٹیں آئی ہوں گی…اور میں نے یہ بھی تو نہیں پوچھا کہ وہ زخمی کیسے ہوا ہے، اسے خیال آیا۔ عباس کو دوبارہ فون کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ سروسز کے پاس پہنچ چکی تھی اور وہ وہاں ہاسپٹل کی چار دیواری کے باہر جگہ جگہ پولیس کی گاڑیاں اور اہلکار دیکھ رہی تھی۔ اسے یہ چیز غیر معمولی نہیں لگی۔ کسی حادثے میں پولیس کے اعلیٰ افسر کے زخمی ہونے پر پولیس کی نفری کا ہونا ضروری تھا اور پھر وہ جانتی تھی خود عباس بھی وہیں تھا، وہاں سکیورٹی کی بہرحال ضرورت تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!