Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”عمر مجھ میں کبھی بھی انٹرسٹڈ نہیں تھا، میں نے آپ کو بتایا تھا، وہ سب میری خوش فہمی تھی۔” علیزہ نے جیسے خود کلامی کی۔
”جو بھی تھا۔ مگر میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ یہ سب کچھ بہت تکلیف دہ تھا۔” جنید خاموش ہو گیا۔ علیزہ نے اس کی آنکھوں میں پانی تیرتے ہوئے دیکھا۔
”مجھے ابھی بھی یہ یقین نہیں آتا کہ وہ…وہ زندہ نہیں ہے۔ زندگی میں پہلی بار دو ہفتے گزر گئے ہیں اور میں اس سے رابطہ نہیں کر سکا، مل نہیں سکا، نہ اس نے مجھ سے رابطہ کیا، ورنہ ہم لوگ کسی نہ کسی طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ چاہے ملک میں ہوتے یا بیرون ملک۔” وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”میں نے عمر سے بڑھ کر genuine (کھرا) آدمی زندگی میں نہیں دیکھا۔ ہم دونوں کے درمیان بہت سے اختلافات ہوتے تھے۔ وہ بہت تسلط پسند تھا۔ میں ایسا نہیں تھا مگر اس کے باوجود ہمارے درمیان تمام اختلافات ختم کرنے میں پہل وہی کیا کرتا تھا۔ ”چھوڑو، کوئی اور بات کرتے ہیں۔” وہ خود جھگڑا شروع کرتا پھر یکدم موضوع بدل دیتا اور میں واقعی موضوع بدل دیتا۔ مجھے اب بھی یہ ہی لگ رہا ہے کہ اس نے ایسا ہی کیا ہے۔
اس کی موت سے کچھ دیر پہلے اس سے میری بات ہوئی تھی۔ میں تمہارے سلسلے میں اس سے تفصیلی بات کرنا چاہتا تھا۔” وہ دم سادھے جنید کو دیکھتی رہی۔
”وہ شاید جان گیا تھا کہ میں تمہارے سلسلے میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھے رات کو فون کرے گا اور وہ رات اب کبھی نہیں آئے گی۔ وہ ہمیشہ یہی کیا کرتا تھا، جو بات نہیں بتانا چاہتا تھا وہ نہیں بتاتا تھا۔ ” جنید کے لہجے میں شکست خورد گی تھی۔



”میں اب کسی معاملے کی تحقیق نہیں کرنا چاہتا۔ میں بس اس ایک رشتے کو قائم رکھنا چاہتا ہوں جو اس کی خواہش تھی مگر میں صرف اس کی خواہش کے احترام میں ایسا نہیں کر رہا ہوں، میں یہ اپنے لیے کر رہا ہوں، اپنی فیملی کے لیے کر رہا ہوں، تمہارے لیے کر رہا ہوں، تمہاری فیملی کے لیے کر رہا ہوں، کسی پچھتاوے کے بغیر، کسی بوجھ کے بغیر میں چاہتا ہوں ہم تمام پرانی باتوں کو بھلا دیں، زخموں کو کریدنے کی کوشش نہ کریں۔
زندگی کو آج سے شروع کریں، کچھ وقت لگے گا مگر پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس نے چند دن پہلے لاہور میں مجھ سے کہا تھا کہ میں تمہارا بہت خیال رکھوں اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے عمر کی بات نہ مانی ہو۔ میں کسی طرح سے بھی تمہیں چھوڑ نہیں سکتا۔”
علیزہ نے اسے اس جملے کے بعد کرسی سے اٹھتے اور لان سے نکلتے دیکھا۔ وہ اپنی آنکھوں کو مسلنے لگی۔
وہ اور جنید ایک ہی شخص کی محبت میں گرفتار تھے، صرف نوعیت مختلف تھی، تعلق کی گہرائی میں کوئی فرق نہیں تھا۔
لان میں چھائے سکوت کو پرندوں کی چہچہاہٹ توڑ رہی تھی۔ بہت دور، جنید گاڑی کو ریورس کرتے ہوئے ڈرائیو وے سے نکال رہا تھا۔ اس نے ایک سال کے دوران پہلی بار جنید کی باتوں میں بے ربطی محسوس کی تھی۔ وہ بہت ہمواری اور روانی سے بات کیا کرتا تھا۔ آج پہلی بار اس کی گفتگو میں دونوں چیزیں مفقود تھیں۔ وہ خود اس سے کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں تھی۔ آخر جنید ابراہیم سے کیا بات کی جا سکتی تھی،تعزیت کی جاتی، افسوس کیا جاتا، کون کس سے کرتا۔ عمر کی موت نے دونوں کو ایک ہی طرح متاثر کیا تھا۔
عمر بالکل غلط کہتا تھا کہ اس کی موت سے کسی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس کی موت نے بہت سی زندگیوں کو وقتی طور پر ابنارمل کر دیا تھا، ان میں سے ایک زندگی اس کی تھی، دوسری جنید کی اور تیسری…؟ درد کی ایک لہر اس کے اندر سے گزری۔
”تیسری جوڈتھ کی۔” اس نے سوچا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!