”اس نے میرا خیال رکھا…اس نے میری پروا کی۔ اس نے میری خواہشات کا احترام کیا۔ اس نے میرے ساتھ ہر چیز شیئر کی۔ بس اس نے مجھ سے محبت نہیں کی۔”
علیزہ نے مڑ کر اسے دیکھا۔ جوڈتھ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”محبت…اس نے تم سے کی۔” وہ اب تھکے ہوئے انداز میں مسکرا رہی تھی۔
”تمہاری منگنی والی رات میں اسلام آباد میں تھی۔ اس نے مجھے رات دو بجے فون کیا۔ وہ بہت زیادہ ڈپریس تھا مجھے بہت حیرانی ہوئی۔ کم از کم اس رات اسے ڈپریس نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس رات تمہاری اور جنید کی منگنی تھی۔ اسے بہت خوش ہونا چاہیے تھا۔ میں نے اس سے یہ کہہ دیا۔ وہ بہت دیر خاموش رہا۔ اتنی دیر کہ مجھے لگا، فون ڈس کنکٹ ہو گیا ہے۔ پھر اس نے مجھ سے کہا۔
”میں نے آج اس کو بہت رُلایا ہے۔ بہت زیادہ ، میں نے آج اس کو بہت جھڑکا ہے، وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے، وہ جنید کے ساتھ منگنی توڑنا چاہتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ وہ میرے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ میں نے آج اسے بہت جھڑکا ہے۔ اسے بہت رُلایا ہے لیکن میں اس کے پاس سے اٹھ کر آیا ہوں تو مجھے لگ رہا ہے۔ میں تو اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گا۔ مجھے تو اس سے بہت محبت ہے۔ میں کیسے اسے جنید کے ساتھ دیکھ سکوں گا۔ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔”
اس نے، اس رات میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی تھی۔ میں تو تب تک یہی سمجھتی رہی تھی کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے لیکن وہ…میں اگلے دن لاہور چلی آئی۔ میں نے اس سے کہا۔
تم علیزہ کی بات مان لو، اگر تم اس سے محبت کرتے ہو تو اس سے شادی کر لو۔” اس نے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ وہ پچھلی رات شراب پی رہا تھا، شاید شراب کے نشے میں اس نے کوئی فضول بات کی ہوگی ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ہے مگر میں جان گئی تھی۔ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا تھا یا شاید ویسی محبت نہیں کرتا تھا جیسی تم سے کرتا تھا۔”
علیزہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ زرد چہرے کے ساتھ، پھر اس نے مڑ کر کمرے پر ایک نظر ڈالی۔
وہ وہیں کہیں تھا۔ اس کی راکنگ چیئر اسی طرح جھولتی محسوس ہوئی تھی جیسے وہ جھلایا کرتا تھا، ہر چیز پر جیسے اس کا لمس موجود تھا، ہر طرف جیسے اس کی آواز گونج رہی تھی۔ وہی دھیما ٹھہرا، گہرا لہجہ، وہی پرسکون، دل کے کہیں اندر تک اُتر جانے والی آواز… ”علیزے!” اور پھر وہی کھلکھلاتے ہوئے بے اختیار قہقہے۔ اس کمرے میں سب کچھ زندہ تھا۔ واہمہ عکس بن گیا تھا اور عکس حقیقت بن کر اس کے اردگرد پھرنے لگا تھا۔
اس نے مڑ کر ڈریسنگ ٹیبل کو دیکھا۔ جوڈتھ شاید اس سے کچھ کہہ رہی تھی۔
وہ ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے چلی آئی۔ ایک سایہ اس کے ذہن میں لہرایا، ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں یکدم کوئی نظر آنے لگا۔ اسے اپنی گردن پر، بالوں پر ایک پھوار سی پڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”میں علیزہ کو Joy دوں گا۔ پھر Eternity۔”
اس نے مڑ کر جوڈتھ کو دیکھا۔ اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔
وہ کچھ دیر جوڈتھ کو دیکھتی رہی۔ پھر لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر چلی گئی۔