وہ متعلقہ گیٹ سے اندر چلی گئی، اندر پولیس والوں کی تعداد باہر سے بھی زیادہ تھی، وہ گاڑی پارک کر رہی تھی جب اس کے موبائل پر کال آنے لگی۔ گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے اس نے کال ریسیو کی، دوسری طرف صالحہ تھی۔ گاڑی کے دروازے کو لاک کرتے ہوئے اس کی نظر سائرن بجاتی ایمبولینس اور پولیس کی گاڑیوں پر پڑی جو اسی گیٹ سے اندر داخل ہو رہی تھیں۔
”ہیلو علیزہ !” دوسری طرف سے صالحہ کہہ رہی تھی۔
”ہیلو۔”
علیزہ نے گاڑی کے لاک کو چیک کرتے ہوئے کہا۔ اس کی نظر اب بھی اس ایمبولینس پر تھی جو رک گئی تھی مگر اس کے اردگرد پولیس اہلکاروں کا لمبا چوڑا ہجوم تھا۔ وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اس میں عمر ہوگا۔ وہ کچھ مضطرب سی ہو گئی۔
”آئی ایم سوری۔” دوسری طرف سے اس نے صالحہ کو کہتے سنا۔
” کس لیے؟” وہ صالحہ کی بات پر کچھ حیران ہوئی۔ اس کی نظر اب بھی ایمبولینس پر تھی جس کا پچھلا دروازہ اب کھل چکا تھا۔
”عمر جہانگیر کی ڈیتھ کے لیے…یقین کرو…مجھے واقعی افسوس ہے۔” موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر پڑا۔
”ڈیتھ۔” اس نے بے یقینی سے کہا۔
”میرے خدا۔” وہ ایمبولینس سے نکالے جانے والے سٹریچر کو دیکھ رہی تھی۔
سٹریچر پر موجود سفید چادر جگہ جگہ سے خون آلود تھی۔
فوٹو گرافرز کی فلیش لائٹس…
سٹریچر کے ساتھ چلتا ہوا عباس…
اس کے بہت سارے دوسرے کزنز…
اس نے ایک قدم آگے بڑھایا…دوسرا…تیسرا…اور پھر اس نے خود کو بھاگتے پایا تھا۔
پاگلوں کی طرح ہجوم کو کاٹتے…
ایک پولیس والے نے اسے روکنے کی کوشش کی، اس نے پوری قوت کے ساتھ اس کو دھکا دیا…پھر اس کے کسی کزن نے اسے دیکھ لیا تھا اور دوبارہ کسی نے اسے نہیں روکا۔
وہ بھاگتی ہوئی سٹریچر کے سامنے آئی تھی۔ عباس نے اسے دیکھا تو سٹریچر پر رکھا ہوا ہاتھ ہٹا لیا اور چند قدم تیزی سے چلتا ہوا اس کے پاس آگیا۔ علیزہ کے گرد اپنا بازو پھیلاتے ہوئے اسے ایک طرف کیا تھا۔
سٹریچر کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئی تھی، وہ اسی تیزی کے ساتھ اس کے سامنے سے گزر گیا…وہ اس کے اتنے قریب سے گزرا تھا کہ ہاتھ بڑھا کر اس کا چہرہ چھو سکتی تھی۔ سفید چادر جہاں سب سے زیادہ خون آلود تھی، وہ اس کا سر اور چہرہ ہی ہو سکتا تھا…لیکن وہ ہاتھ نہیں بڑھا سکی۔
وہ یہ یقین ہی نہیں کر سکتی تھی کہ اس سٹریچر پر، اس حالت میں…اس سفید چادر سے ڈھانپا ہوا وجود عمر کا ہو سکتا ہے…
عمر جہانگیر کا…
اس کی نظروں نے آپریشن تھیٹر تک سٹریچر کا تعاقب کیا پھر اس نے گردن موڑ کر پہلی بار عباس کا چہرہ دیکھا۔
”عمر۔” اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر حلق سے آواز نہیں نکلی۔ صرف ہونٹوں میں جنبش ہوئی تھی، عباس نے شکست خوردہ انداز میں سر ہلایا۔ وہ بے یقینی سے اس کا ستا ہوا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔
ایک فوٹو گرافر نے ان دونوں کی تصویر کھینچی…فلیش لائٹ چمکنے پر اس نے عباس کو غضب ناک ہوتے دیکھا۔
”اس باسٹرڈ سے کیمرہ لے کر…دھکے دے کر اسے یہاں سے نکالو۔” وہ اب کسی سے کہہ رہا تھا۔
علیزہ نے چند پولیس والوں کو اس فوٹو گرافر کی طرف بڑھتے دیکھا۔
”عباس کو غلط فہمی ہوئی ہو گی، یہ عمر نہیں ہوگا، کوئی اور ہو گا، عمر اس طرح کیسے۔۔۔” ماؤف ذہن کے ساتھ اس نے آپریشن تھیٹر کے بند دروازے کو دیکھا۔
اس نے عباس کے بازو کو اپنے کندھے سے ہٹانے کی کوشش کی، وہ عمر کو اس کے موبائل پر رنگ کرنا چاہتی تھی۔
اسے یاد آیا، اس کے پاس نہ اس کا بیگ تھا، نہ فون…گاڑی کی چابی تک نہیں تھی۔
”علیزہ ! اس کمرے میں چلی جاؤ، تانیہ وہاں ہے۔ میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔” عباس اسے ایک طرف لے جانے کی کوشش کرنے لگا۔