”مجھے موبائل دیں، مجھے فون کرنا ہے۔” وہ اب کسی دوسرے کو ریڈور میں تھی، اس کا ایک اور کزن خضر علی ان کے ساتھ تھا وہ اور عباس کچھ کہہ رہے تھے۔ علیزہ کے لیے ان کی باتوں کو سمجھنا مشکل ہو رہا تھا۔
ان کے ساتھ چلتے ہوئے وہ اب کسی کمرے میں داخل ہو گئی، وہاں تانیہ تھی اور اس کی فیملی کی چند دوسری خواتین بھی۔
”پلیز، فون دیں۔” اس نے کمرے کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
”کس کو فون کرنا ہے، میں کر دیتا ہوں۔” عباس نے نرمی سے کہا۔
”عمر کو۔۔۔”
عباس نے تانیہ کو اشارہ کیا۔ ”Just take care of her” (اسے سنبھالو)
تانیہ نے اسے بازو سے پکڑ کر ایک طرف لے جانے کی کوشش کی۔ وہ یکدم مشتعل ہوئی ، اس نے درشتی سے تانیہ کا بازو جھٹکا۔
”میں آپ سے فون مانگ رہی ہوں…اور آپ میری بات نہیں سن رہے۔” عباس باہر جاتے جاتے رک گیا۔ علیزہ کی آواز بے حد بلند تھی۔ عباس نے ایک نظر دروازے کے باہر موجود ہجوم پر ڈالی۔
”خضر! تم چلو، میں آتا ہوں۔” اس نے ساتھ کھڑے خضر سے کہا اور اس کے باہر نکلتے ہی دروازے کو آہستگی سے بند کر دیا۔
”مجھے فون دیں۔” علیزہ ایک بار پھر غرائی۔ ”میں اسے فون کرنا چاہتی ہوں۔”
”جسے تم فون کرنا چاہتی ہو، وہ اب نہیں ہے…پلیز تم۔۔۔”
اس نے عباس کی بات کاٹ دی۔
”میری بات کروا دیں اس سے…پلیز عباس بھائی! بات کروا دیں۔ آپ لوگوں کو کوئی غلط فہمی ہے، عمر کو کچھ نہیں ہوا۔ اسے کچھ نہیں ہو سکتا۔” اس بار اس کی آواز میں بے چارگی تھی۔
”اس کے پاس اتنی سکیورٹی ہوتی ہے، اسے کچھ کیسے ہو سکتا ہے، آپ خود سوچیں نا۔ کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے عباس بھائی۔” وہ بے ربط جملے بول رہی تھی۔
کیا کہہ رہی تھی، نہیں جانتی تھی۔ کیا کہنا چاہتی تھی، اس سے بھی بے خبر تھی۔
عباس کے چہرے کی تھکن اور شکستگی اس کے خوف میں اضافہ کر رہی تھی مگر خوف…؟
”کیا خوف تھا اسے؟ بے یقینی؟ کیسی بے یقینی تھی؟
عباس نے اس بار کچھ نہیں کہا، وہ ایک ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔
علیزہ کی نظر پہلی بار اس کے بائیں ہاتھ میں پڑے سیلڈ پیکٹ پر پڑی جس کی سیل وہ اب کھول رہا تھا۔ پیکٹ کی سیل کھولنے کے بعد اس میں موجود چیزوں کو آہستگی سے ٹیبل پر الٹ دیا۔
وہ عمر کا موبائل ، گلاسز، سگریٹ کیس، لائٹر، گھڑی، والٹ اور چند دوسری چیزیں تھیں۔ وہ کچھ چیزوں کو پہچانتی تھی، کچھ کو نہیں پہچانتی تھی۔ کچھ بھی کہے بغیر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے وہ میز کے قریب آکر کھڑی ہو گئی۔ میز پر پڑی ہوئی چیزوں میں سے کچھ خون آلودہ تھیں، وہ ان چیزوں کو ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں کر سکی۔ بس دونوں ہاتھ میز پر رکھے ایک ٹک انہیں دیکھتی رہی۔
وہ سب چیزیں کبھی اس شخص کی زندگی کا ایک حصہ تھیں جسے وہ اپنے وجود کا ایک حصہ سمجھتی تھی۔
ان سب چیزوں پر اس شخص کے ہاتھوں کا لمس تھا جسے اس نے دنیا میں سب سے زیادہ چاہا تھا۔ عمر جہانگیر ختم ہو چکا تھا، سامنے پڑا ہوا موبائل فون اب کبھی بھی عمر کے ساتھ اس کا رابطہ نہیں کروا سکتا تھا۔
اس نے وہیں بیٹھ کر ٹیبل پر اپنا سر ٹکا دیا اور مٹھیاں بھینچ کر روتی چلی گئی۔
”میں نے کبھی اس سے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ اس طرح چلا جائے۔” وہ بے تحاشا رو رہی تھی، بچوں کی طرح، جنونی انداز میں۔
اس لمحے اس پر پہلی بار انکشاف ہوا تھا کہ اسے عمر سے کبھی نفرت نہیں ہوئی تھی۔ وہ عمر سے نفرت کر ہی نہیں سکتی تھی صرف ایک دھوکہ اور فریب تھا جو وہ اپنے آپ کو دے رہی تھی، صرف اس خواہش اور اس امید پر کہ شاید کبھی اسے عمر سے نفرت ہو جائے۔
کبھی …کبھی…کبھی…شاید کبھی…
٭٭٭