”تم کرسٹی کے مرنے پر اتنا روئی ہو تو میرے مرنے پر کتنا روؤ گی؟” عمر نے اس سے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
”آپ کس طرح کی باتیں کرتے ہیں؟” وہ بے اختیار برا مان کر بولی۔
”پوچھ رہا ہوں اپنی معلومات میں اضافے کے لیے۔ ” عمر مسکرایا۔
علیزہ پچھلے چار دن سے کرسٹی کے مر جانے کے بعد وقفے وقفے سے رو رہی تھی اور وہ فون پر کرسٹی کے بارے میں جاننے کے بعد اسلام آباد سے تعزیت کرنے آیا تھا۔ وہ اس قدر رنجیدہ اور دل گرفتہ تھی کہ عمر جو صرف ایک دن کے لیے آیا تھا، چار دن اس کے پاس رہا۔
چوتھے دن جب وہ ایئر پورٹ تک ڈرائیور کے ساتھ اسے چھوڑنے جا رہی تھی تو اس نے علیزہ سے پوچھا تھا۔
”اس طرح کی باتیں نہ کریں میرے ساتھ۔” علیزہ کو ایک بار پھر کرسٹی یاد آنے لگی۔ ”مجھے پتا ہے، آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔”
”کیوں؟” عمر کچھ حیران ہوا۔
”بس مجھے پتا ہے۔۔۔” وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
”تم میرے لیے رونا نہیں چاہتی ہو، اس لیے یہ کہہ رہی ہو؟” علیزہ کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو آنے لگے۔
” او کے…اوکے…سوری۔” عمر نے بے اختیار دونوں ہاتھ اٹھائے۔ ”مگر کرسٹی بہت لکی ہے جس کے لیے تم اتنا روئی ہو۔” وہ معذرت کرتے ہوئے بھی کہنے سے باز نہیں آیا۔
٭٭٭