Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

تانیہ نے اسے کندھوں سے پکڑ کر سیدھا کرنے کی کوشش کی، عباس ہونٹ بھینچے ان تمام چیزوں کو ایک بار پھر اسی لفافے کے اندر ڈال رہا تھا۔
”جسٹ ریلیکس علیزہ! رونے سے وہ آ تو نہیں جائے گا۔” تانیہ نے اس کے کندھوں پر کچھ دباؤ ڈالتے ہوئے کہا۔
”میرے رونے سے تو آ جاتا تھا۔” تانیہ کچھ کہہ نہیں سکی۔
”مجھے اس کے پاس جانا ہے…میں اس کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔”
”اس کا پوسٹ مارٹم ہو رہا ہے علیزہ! میں کچھ دیر بعد تمہیں اس کے پاس لے جاؤں گا۔” عباس نے اس کے کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا۔




وہ بے بسی سے روتے ہوئے اسے دیکھتی رہی۔ بہت سالوں کے بعد وہ یوں کسی کے سامنے رو رہی تھی۔ آنسوؤں کو روکنے کی کوئی ارادی یا غیر ارادی کوشش کیے بغیر۔
”تم کبھی میچور نہیں ہو سکتیں علیزہ! تم کبھی میچور نہیں ہو سکتی ہو۔” اس حالت میں پہلی بار اسے عمر کی اس بات کا یقین آرہا تھا بلکہ اس وقت یہاں بیٹھے اس کی ہر بات کا یقین آ رہا تھا۔
وہ ٹھیک کہتا تھا۔ وہ جذباتی تھی، وہ امیچور تھی اور وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ان دونوں خامیوں سے نجات حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ کوئی عمر سے بہتر اسے نہیں جان سکتا تھا۔
عباس اب کمرے سے باہر جا رہا تھا۔ عباس کے جسم پر موجود یونیفارم نے اسے ایک بار پھر عمر کی یاد دلائی تھی۔ کیا کچھ نہ تھا جو اب اسے اس کی یاد نہ دلاتا؟ وہ گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گئی۔
تو یہ ہوتی ہے زندگی
اور یہ محبت
ایک وقت میں ایک ہی چیز ختم ہوتی ہے، دونوں نہیں اور اس وقت اس کے دل میں عمر کے لیے کوئی شکایت، کوئی گلہ، کوئی شکوہ نہیں تھا اور اب زندگی میں کبھی ہو بھی نہیں سکتا تھا۔
”فائرنگ کی تھی کسی نے۔ گاڑی میں اس کا ایک گارڈ اور ڈرائیور بھی مارا گیا۔ عباس کو اس ایکسیڈنٹ کی دس منٹ بعد ہی اطلاع مل گئی تھی۔ وہ بہت اپ سیٹ تھا۔ یہاں سے خود ہیلی کاپٹر میں گیا تھا اس کی باڈی لانے کے لیے، میں کوشش کرتی رہی کہ تم لوگوں کو کسی طرح ٹریس آؤٹ کر لوں مگر نہیں کر سکی۔ خود عبا س نے بھی بہت کوشش کی۔”
تانیہ دھیمی آواز میں ساتھ والی کرسی پر بیٹھی کہہ رہی تھی۔ علیزہ کے لیے یہ سب اطلاعات بے معنی تھیں۔
”وہ چند دنوں میں امریکہ جانے والا تھا ایکس پاکستان لیو پر اور یہ سب کچھ ہو گیا۔” علیزہ نے یکدم سر اٹھا کر دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اس کو دیکھا۔
”تمہیں لگتا ہے، میں چلا جاؤں گا تو تمہارے اور جنید کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؟ اگر ایسا ہے تو میں واقعی دوبارہ کبھی تم دونوں کے درمیان نہیں آؤں گا۔ میں جنید سے دوبارہ کبھی نہیں ملوں گا۔”
”تم کچھ پوچھنا چاہتی ہو؟” تانیہ نے اسے مخاطب کیا، علیزہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔ اس کے گلے میں آنسوؤں کا پھندا سا لگ گیا تھا۔
”تم ہارڈ کور کریمنل ہو۔ بس فرق یہ ہے کہ تم نے یونیفارم پہنا ہوا ہے جس دن یہ یونیفارم اتر جائے گا ، اس دن تم بھی اسی طرح مارے جاؤ گے جس طرح تم دوسرے لوگوں کو مارتے ہو۔”
علیزہ نے شکست خوردگی کے عالم میں سر جھکا لیا۔




اس نے زندگی میں خود کو اس سے زیادہ شکستہ اور قابل رحم کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔
”وہ کتنی تکلیف سے گزرا ہو گا۔ کتنا درد برداشت کرنا پڑا ہوگا اسے۔” وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”کون کہتا ہے کہ کسی شخص سے ایک بار محبت ہونے کے بعد اس سے نفرت ہو سکتی ہے۔ جو کہتا ہے وہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا ہے۔
Cycle of replacement میں صرف محبت کی replacement نہیں ہوتی۔ خود کو فریب دینے کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ ہمارے وجود میں خون کی گردش کی طرح بسنے والا نام کس کا ہوتا ہے۔ ہم کبھی بھی اسے اپنے وجود سے نکال کر باہر نہیں پھینک سکتے۔ تہ در تہہ اس کے اوپر دوسری محبتوں کا ڈھیر لگائے جاتے ہیں، کہتے جاتے ہیں۔ اب ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ اب ہم اس سے محبت کرتے ہیں لیکن جو زیادہ دور ہوتا جاتا ہے وہ زیادہ قریب آتا جاتا ہے اور وہ ہمارے دل اور دماغ کے اس حصے میں جا پہنچتا ہے کہ کبھی اس کو وہاں سے نکالنا پڑے تو پھر اس کے بعد ہم نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔
وہ اس کی محبت میں اٹھارہ سال کی عمر میں گرفتار ہوئی تھی۔ وہ واحد شخص تھا جس سے وہ ہر بات کر لیتی تھی، بہت ساری وہ باتیں بھی جو وہ کبھی شہلا اور نانو سے بھی نہیں کر سکتی تھی۔




وہ واحد شخص تھا جو اس کے نخرے برداشت کرتا تھا۔ ناز اٹھاتا تھا۔ اس نے عمر جہانگیر کے علاوہ کسی سے اتنی ضد نہیں کی تھی۔ کسی کو اتنا تنگ نہیں کیا تھا۔ اس نے عمر جہانگیر کے علاوہ کسی کو برا بھلا بھی نہیں کہا تھا۔ کسی سے بدتمیزی بھی نہیں کی تھی۔ کسی پر چیخی چلائی بھی نہیں تھی۔
وہ واحد شخص تھا جو اس کی ہر غلطی اپنے کندھوں پر لینے کے لیے تیار رہتا تھا۔ جو اسے محفوظ رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا اور وہ یہ سب کچھ جانتی تھی۔
اور اب جب وہ اپنی زندگی کا سفر ختم کرکے دنیا سے جا چکا تھا تو وہ اندھوں کی طرح ہاتھ پھیلائے کھڑی رہ گئی تھی۔ کوئی دوسرا شخص اس کے لیے عمر جہانگیر نہیں بن سکتا تھا۔
دونوں ہاتھ سر پر رکھے وہ بچوں کی طرح رو رہی تھی، بالکل اسی طرح جس طرح وہ اٹھارہ سال کی عمر میں ایک بار عمر کے سامنے پارک میں روئی تھی اور پھر اس کے بعد اس کے سامنے کئی بار روئی تھی۔ کیا کچھ تھا جو آج اسے یاد نہیں آ رہا تھا۔ اسے پہلی بار لگ رہا تھا جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ۔ سب کچھ…کہیں بھی، کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا۔

کیا تھا اگر وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا۔ پھر بھی اس کا ہونا ہی کتنا کافی تھا اس کے لیے۔
کچھ فاصلے پر موجود ایک کمرے میں عمر جہانگیر کے جسم کو کاٹنے والے سارے نشتر اسے اپنے وجود پر چلتے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ اسے اپنی زندگی میں بہت سی تکلیف دہ چیزوں سے بچایا کرتا تھا اور وہاں بیٹھے علیزہ سکندر کی خواہش اتنی تھی وہ اس سب کے بدلے عمر جہانگیر کو صرف ایک چیز سے بچا لے…موت سے…
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!