Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

رپورٹرز نے صوبائی وزیر کو گھیرا ہوا تھا۔ جو کچھ دیر پہلے ہاسپٹل پہنچے تھے۔
”آپ کا کیا خیال ہے سر! اس قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے؟’ ‘ ایک رپورٹر نے ان سے سوال کیا۔
”دیکھیں، اس بارے میں فوری طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پولیس نے انوسٹی گیشن کا آغاز کر دیا ہے امید ہے جلد ہی اس افسوس ناک حادثے کے مجرموں کو پکڑ لیا جائے گا۔” انہوں نے اپنے پاس کھڑے آئی جی پنجاب کو دیکھتے ہوئے کہا جو مودبانہ انداز میں سر ہلانے لگے۔
”کیا پولیس کو اس معاملے میں کوئی لیڈ ملی ہے؟” ایک اور سوال ہوا۔
”اس بارے میں آئی جی صاحب آپ کو زیادہ اچھی طرح بتا سکتے ہیں مگر میں نہیں سمجھتا کہ وہ ابھی فوری طور پر آپ کو کوئی بریکنگ نیوز دے سکتے ہیں۔ پھر بھی بہتر ہے یہ سوال آپ ان ہی سے کریں۔” انہوں نے آئی جی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔




”عمر جہانگیر ہمارے ایک بہت قابل آفیسر تھے۔” آئی جی نے اشارہ پاتے ہی اپنے بیان کا آغاز کیا۔
”ان کے ساتھ ہونے والا حادثہ دراصل ہمارے پورے ڈیپارٹمنٹ کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ جیسا کہ آپ کو منسٹر صاحب نے بتایا۔ پولیس نے اپنی انوسٹی گیشن کا آغاز کر دیا ہے۔ ہم حالات کا جائزہ لینے اور شواہد کی مدد سے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر مجرموں کو پکڑنے کی کوشش کریں گے اور ہمیں پوری امید ہے کہ ہم اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جائیں گے۔”
ایک رپورٹر نے آئی جی کی بات کو کاٹا ”سر یہ جو آپ اڑتالیس گھنٹے کی بات کررہے ہیں۔ آج تک کون سی پولیس اڑتالیس گھنٹوں میں مجرم پکڑنے میں کامیاب ہوئی ہے؟” آئی جی کے ماتھے کے بل کچھ گہرے ہوگئے۔
”اگر پولیس اڑتالیس گھنٹوں میں مجرم پکڑنے میں کامیاب ہوتی تو آج ہم اور آپ یہاں کھڑے ہو کر یہ گفتگو نہ کررہے ہوتے۔ پچھلے ایک سال میں جب سے آپ آئی جی پنجاب بنے ہیں۔ سات مختلف رینکس کے آفیسر کو مارا گیا ہے اور پولیس اس سلسلے کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔”
اس بار آئی جی نے قدرے ترشی سے اس غیرملکی براڈ کاسٹنگ کے ادارے سے وابستہ تیز طرار قسم کے پاکستانی صحافی کی بات کو کاٹ دیا۔
”پولیس نے ایک کے علاوہ تمام واقعات میں ملوث مجرموں کو پکڑ لیا ہے۔”
”اگر آپ واقعی مجرموں کو گرفتار کر چکے ہوتے تو آج آپ کا ایک اور آفیسر اس طرح مارا جاتا۔” اس رپورٹر نے بھی اتنی ہی تندی و تیزی سے کہا۔
صوبائی وزیر نے بروقت مداخلت کی۔ ”دیکھیں، یہ کچھ زیادہ ہی سخت قسم کا تبصرہ ہے جو آپ کررہے ہیں۔ آئی جی صاحب نے جب سے اپنی tenure شروع کی ہے، پنجاب میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال بہت بہتر ہو گئی ہے۔”
”سر! آپ نہیں سمجھتے کہ اتنے سینئر آفیسر کے قتل کے موقع پر لاء اینڈ آرڈر کی بہتر صورت حال کی تعریف کچھ مذاق لگتا ہے؟” صوبائی وزیر چند لمحے کچھ نہیں بول سکے۔
”وہ…دیکھیں…وہ…اگر…آپ پورے ملک میں دیکھیں…تو…میں اس کے لحاظ سے صورت حال میں بہتری کی بات کر رہا ہوں۔” صوبائی وزیر بے اختیار بوکھلائے۔
”باقی تینوں صوبوں میں کبھی بھی اس طرح دھڑا دھڑ آفیسرز قتل نہیں ہوئے۔ خاص طور پر ایک سال میں۔ آخر پنجاب میں ہی ایسا کیوں ہور ہا ہے۔”
صوبائی وزیر کے ساتھ ساتھ آئی جی پنجاب کا دل چاہا کہ وہ اس رپورٹر کی بتیسی کے ساتھ ساتھ اس کی زبان نکال کر بھی اس کے ہاتھ میں رکھ دیں مگر ہارورڈ سے پڑھا ہوا وہ صحافی ایک وفاقی وزیر کا بیٹا تھا۔ وہ اس کی بکواس اور سوال سننے پر مجبور تھے۔
”آپ پنجاب کی آبادی بھی تو دیکھیں۔” وزیر کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
”آبادی سے آفیسرز کے قتل کا کیا تعلق ہے؟”
”میں لاء اینڈآرڈر کی صورت حال کے حوالے سے آبادی کا ذکر کر رہا ہوں۔” وزیر صاحب نے قدرے تحمل مزاجی کا ثبوت دیا۔ ”باقی صوبوں میں کم آبادی کی وجہ سے اتنے مسائل کا سامنا پولیس کو نہیں کرنا پڑتا جتنا پنجاب میں کرنا پڑتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم حالات کو اور بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔”
”آپ کا ایک ایس پی جو کسی شہر میں بادشاہ کے برابر ہوتا ہے وہ دن دیہاڑے اپنے گارڈ اور ڈرائیور کے ساتھ شہر کے بیچ میں قتل ہو جائے تو عام لوگ اپنی حفاظت کے لیے کس کی طرف دیکھیں۔” اس رپورٹر نے چیونگم چباتے ہوئے کہا۔
”پولیس اگر اپنے ایک آفیسر کو نہیں بچا سکتی تو وہ ایک عام آدمی کو کتنی سکیورٹی دے سکتی ہے۔”




”دیکھیں، جس شہر میں وہ تعینات تھے ، وہ پنجاب کے حساس علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے اور عمر جہانگیر کے بارے میں محکمے کو کچھ ایسی خبریں ملی تھیں کہ ان کی جان کو خطرہ تھا۔ انہیں دھمکی آمیز فون کالز بھی کی جاتی رہی تھیں۔ پھر ہم اس پورے معاملے میں دہشت گردی کے عنصر کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دے سکتے۔ بہت سارے فیکٹرز ہیں جو ایسے حادثات کا سبب بن جاتے ہیں مگر ہم پوری کوشش کررہے ہیں کہ ایسے حادثات دوبارہ نہ ہوں۔ تھوڑی دیر میں پولیس آفیسرز کی ایک ہائی لیول کی میٹنگ ہو رہی ہے۔ کل وزیر داخلہ آرہے ہیں، وہ بھی ایک میٹنگ کررہے ہیں۔ ” اس بار آئی جی نے منسٹر سے اجازت لیتے ہوئے کہا اور رپورٹرز نے مزید کوئی سوال نہیں کیا تو آئی جی کی جان میں جان آئی۔
”سر! آپ نے دہشت گردی کا ذکر کیا ہے۔ کیا آپ کا اشارہ مذہبی دہشت گردی کی طرف ہے لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال کو خراب کرنے کے لیے یہ کسی غیرملکی ایجنسی کا کام ہے؟” ایک دوسرے رپورٹر نے نکتہ اٹھایا۔
”میں نے آپ کو بتایا نا…اس مرحلے پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ، جیسے ہی ہم اس معاملے میں کچھ پروگریس کرتے ہیں پریس کانفرنس کے ذریعے آپ لوگوں کو پولیس کی تمام کارروائی کے بارے میں آگاہ کر دیں گے۔” آئی جی نے کہا۔
”عمر جہانگیر کافی متنازعہ شخصیت تھے ۔ پچھلے کچھ سالوں میں کئی حوالوں سے وہ اخبارات میں آتے رہے۔ کہیں یہ کسی ذاتی دشمنی کا نتیجہ تو نہیں ہے؟” ایک دوسرے رپورٹر نے کہا۔
”ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔” آئی جی نے اس بار اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”سر! کیا اس قتل سے آئندہ آنے والی پولیس ریفارمز پر کچھ اثر پڑے گا؟” اس بار ایک دوسرے رپورٹر نے پوچھا۔
”کیسا اثر؟”
”کیا آپ کو نہیں لگتا کہ پولیس کے اختیارات میں کمی اور رول میں تبدیلی کرکے آپ پولیس آفیسر کو مزید Vulnerable بنا دیں گے۔”




”اس کے برعکس میں سمجھتا ہوں کہ اس نئے سسٹم سے پولیس اور عوام کے درمیان ایک بہتر ورکنگ ریلیشن شپ پیدا ہوگا اور اس طرح کے حادثات کا سدباب بھی ہو سکے گا۔ ”لاء اینڈ آرڈر” کی صورت حال بھی اور بہتر ہو گی۔” صوبائی وزیر نے اپنے پسندیدہ جملے کی ایک بار پھر گردان کی۔
”یعنی ایس پی جب ڈی پی او اور ڈی سی جب ڈی سی او کہلانے لگیں گے تو پھر وہ اس طرح کھلے عام سڑکوں پر نہیں مارے جائیں گے۔”
”شیراز صاحب! آج آپ کو ہوا کیا ہے۔ کس طرح کے سوال کررہے ہیں آپ بار بار؟” بالآخر صوبائی وزیر چڑ کر بول ہی اٹھے۔
”شیراز صاحب نے سول سروس کے ایگزام میں دوسری پوزیشن لی ہے اور چند ہفتوں میں اکیڈمی جوائن کررہے ہیں۔” ایک دوسرے رپورٹر نے لقمہ دیا۔
”پھر تو میں امید کرتا ہوں کہ آپ پولیس سروس میں ہی آئیں گے تاکہ وہ بہتری جو ہم نہیں لا سکے آپ لائیں اور ہم بھی آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔” اس بار آئی جی نے اپنے چہرے پر ایک زبردستی کی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔
”ویسے بھی پولیس کے محکمے کو ضرورت ہے آپ جیسے آفیسرز کی۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔۔۔” صوبائی وزیر نے آئی جی کے جواب میں کچھ اضافہ کیا اور اگلے کسی سوال سے پہلے اپنی گاڑی کی طرف جانے لگا۔
”میں الو کا پٹھا ہوں۔ میں جاؤں گا پولیس سروس میں۔” شیراز صدیقی بڑبڑایا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!