Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

ہر چیز بہت تیز رفتاری سے ہوئی، دوسرے دن شام کے قریب عمر جہانگیر کی تدفین کر دی گئی۔ جہانگیر معاذ دوپہر کے قریب پاکستان پہنچ گئے تھے۔ زرا مسعود پاکستان نہیں آ سکیں۔ وہ ایک آپریشن کے لیے ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھیں اور ان کے شوہر نے بیماری اور آپریشن کے مدنظر انہیں اطلاع دینے سے معذرت کر لی تھی۔
معاذ حیدر جیسے خاندان کے لیے عمر جہانگیر کا قتل ایک بہت بڑا صدمہ تھا، یہ تصور کرنا بھی ان کے لیے مشکل تھا کہ ان کے اپنے خاندان کے کسی فرد کو بھی اس طرح دن دیہاڑے قتل کیا جا سکتا ہے۔
عمر کے قاتلوں کے بارے میں فوری طور پر کچھ پتا نہیں چلا۔ وہ کون تھے؟ انہوں نے عمر کو کیوں قتل کیا؟ اور ایسے بہت سے سوالات کا کوئی جواب کہیں نہیں تھا۔ شاید آنے والا وقت بھی ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔
معاذ حیدر کا پورا خاندان اگلے کئی دن تک ان کے گھر پر جمع ہوتا رہا۔ موضوع گفتگو ہر ایک کے لیے عمر ہی رہا۔ علیزہ ان سب کو عمر کے بارے میں باتیں کرتے سنتی رہی۔
وہ ڈسکس کرتے تھے، کس طرح انہوں نے عمر کو بہت سی چیزوں کے بارے میں سمجھانے اور آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی، کس طرح عمران تما م باتوں کو اگنور کرتا رہا، کس طرح اس کی لاپروائی اسے مختلف مواقع پر نقصان پہنچاتی رہی۔
اور ہر بحث کا نتیجہ ایک ہی نکلا کہ عمر کے ساتھ ہونے والے اس حادثے میں عمر کی اپنی غلطیاں بھی معاون تھیں۔ اسے بے ضرر بن کر سسٹم کا حصہ بننا نہیں آیا تھا، وہ ایک پاپولر آفیسر بھی نہیں تھا۔




علیزہ جانتی تھی، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جسے عمر سے ہمدردی نہیں تھی، جو عمر کے ساتھ ہونے والے واقعے پر رنجیدہ نہیں تھا مگر اس سب کے باوجودوہ Facts اور figures (حقائق) کی بات کرتے تھے کیونکہ وہ سب پریکٹیکل لوگ تھے، حقیقت پسند جو کسی بھی چیز کو رشتوں اور جذباتی تعلق کے حوالے سے نہیں لے سکتے تھے۔
وہ سب عمر کواتنے بے تاثر اور غیر جذباتی انداز میں ڈسکس کر سکتے تھے مگر علیزہ نہیں کر سکتی تھی۔ وہ جانتی تھی، وہ کوئی ایماندار آفیسر نہیں تھا۔ وہ بہت سے غلط کاموں میں ملوث رہا تھا، بہت سے لوگوں کو اس نے بہت تکلیف بھی دی تھی اور بہت سے لوگوں کے لیے مسلسل پریشانی کا باعث بھی بنا رہا تھا۔ کوئی بھی اس کی موت کو ”جوبو یا وہ کاٹا” قرار دے سکتا تھا۔ کوئی بھی یہ کہہ سکتا تھا کہ عمر جہانگیر اسی سلوک کا مستحق تھا مگر وہ ایسا نہیں کہہ سکتی تھی۔
اس کی زندگی میں وہ اس پر بے تحاشا تنقید کرنے لگی تھی۔ اسے عمر جہانگیر کے کاموں پر اعتراض ہونے لگا تھا مگر اس کی موت کے بعد اسے یہ احساس ہوا کہ وہ اچھا آدمی نہیں تھا۔ اچھا آفیسر بھی نہیں تھا، دوسروں کے لیے مگر اس کے لیے وہ ہمیشہ اچھا ہی رہا تھا اور وہ عمر جہانگیر کو دوسروں کی عینک سے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ وہ دوسروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی بنیاد پر اس سے نفرت نہیں کر سکتی تھی۔ یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ اس کے ساتھ جو ہوا ٹھیک ہوا۔
عمر کی موت کے ایک ہفتے کے بعد اس نے اخبار سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اب اس سسٹم کے بارے میں کبھی کچھ نہیں لکھ سکے گی۔ وہ کس منہ سے ان تمام چیزوں کے لیے دوسروں پر تنقید کر سکتی تھی جن کے لیے اس نے عمر جہانگیر کو معاف کر دیا تھا جن کے لیے وہ عمر جہانگیر کو بخشنے پر تیار تھی۔ اپنی فیملی کے اس فرد کو جس کے ساتھ اس کا جذباتی تعلق تھا۔




اسے نہیں پتا تھا کہ جہانگیر معاذ عمر کی موت سے کس حد تک متاثر ہوئے تھے، اس کے خاندان کے دوسرے مردوں کی طرح وہ بھی اپنے احساسات چھپانے اور چہرہ بے تاثر رکھنے میں ماہر تھے، یہ وہ خصوصیت تھی جو معاذ حیدر جیسے بڑے خاندانوں کے لوگوں کے ساتھ ساری عمر چلتی تھی۔
علیزہ نے نمرہ کی موت پر جہانگیر معاذ کو پریشان دیکھا تھا مگر عمر کی موت پر وہ بے حد خاموش تھے، ان کے اور عمر کے درمیان کبھی بھی خوشگوار تعلقات نہیں رہے۔ وہ جانتی تھی، پچھلے چند سالوں سے ان دونوں کے درمیان بول چال تک بند تھی مگر خود وہ بھی پچھلے ڈیڑھ سال سے عمر کے ساتھ ناروا سلوک کر رہی تھی۔ اس کے باوجود اس کی موت نے اسے بری طرح توڑ پھوڑ دیا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ جہانگیر معاذ کے اندر کتنی توڑ پھوڑ ہوئی ہے۔ آخر وہ ان کا بڑا بیٹا تھا۔
عمر کے حادثے کی وجہ سے اس کی شادی پس منظر میں چلی گئی تھی ۔ ثمینہ نے پاکستان میں اپنا قیام بڑھا دیا تھا مگر انہوں نے جنید کی فیملی سے یا جنید کی فیملی نے ان سے اس معاملے میں فی الحال کوئی بات نہیں کی تھی۔
عمر کے دسویں کے بعد آہستہ آہستہ سب نے واپس جانا شروع کر دیا۔ ہر ایک اپنی اپنی زندگی کی طرف دوبارہ لوٹ رہا تھا۔ جہانگیر معاذ بھی بارھویں دن اپنی فیملی کے ساتھ واپس امریکہ چلے گئے تھے۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!