Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

باب 56

”آپ چائے پئیں گے؟” علیزہ نے جنید سے پوچھا۔ ان دونوں کے درمیان تقریباً دو ہفتے کے بعد ملاقات ہو رہی تھی۔ وہ ہاسپٹل سے گھر تک، ہر جگہ موجود رہا تھا اور دسویں تک ہر روز اپنے گھر والوں کے ساتھ ان کے گھر آتا رہا تھا مگر اس کے اور علیزہ کے درمیان براہ راست کوئی بات نہیں ہوئی۔ حادثے کے بعد آج پہلی بار وہ علیزہ سے مل رہا تھا اور اس کی فیملی اس کے ساتھ نہیں تھی، وہ جس وقت آیا تھا، اس وقت تانیہ واپس گھر جا رہی تھی اور علیزہ اس کے ساتھ پورچ میں کھڑی تھی، جب گیٹ سے جنید کی گاڑی اندر داخل ہوئی تھی۔ اس نے گاڑی تانیہ کی گاڑی کے پاس لا کر کھڑی کر دی۔ کچھ دیر اس کے اور تانیہ کے درمیان رسمی بات چیت ہوئی پھر تانیہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔
”آیئے اندر آ جائیں۔” یہ پہلا جملہ تھا جو بہت دنوں کے بعد ان دونوں کے درمیان بولا گیا تھا۔
”نہیں، باہر لان میں بیٹھتے ہیں۔” جنید نے کہا اور وہ خاموشی سے لان کی طرف بڑھ گئی۔
اور اب وہ پچھلے دس منٹ سے لان کی کرسیوں پر چپ چاپ بیٹھے تھے، علیزہ نے اس گہری خاموشی کو توڑنے کے لیے اس سے پوچھا۔
”آپ چائے پئیں گے؟”
”نہیں، میں یہاں آنے سے پہلے چائے پی کر آیا ہوں۔” جنید نے جواباً کہا اور پھر کچھ توقف کے بعد پوچھا۔ ”جوڈتھ نے فون کیا تھا تمہیں؟”
”جوڈتھ نے…؟نہیں…نانو سے اس کی دوبار بات ہوئی ہے۔” علیزہ نے بتایا۔
”وہ تم سے بات کرنا چاہتی تھی۔”




”ہاں، نانو نے مجھے بتایا مگر یہ ایک اتفاق ہی ہے کہ اس سے دونوں بار میری بات نہیں ہو سکی۔”
”وہ ہفتے کی رات کو پاکستان آرہی ہے۔” جنید نے بتایا۔ علیزہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی، وہ کہہ رہا تھا۔
”وہ یہاں ٹھہرنا چاہتی ہے۔” وہ جانتی تھی جنید کا اشارہ کس طرف ہے۔
”میں نے اسے اپنے گھر رہنے کے لیے کہا ہے مگر اس کی خواہش ہے یہاں ٹھہرنے کی۔”
”آپ ان سے یہاں آنے کے لیے کہہ دیں، مجھے اور نانو کو انہیں ریسیو کرکے خوشی ہو گی۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔ وہ جانتی تھی جوڈتھ پاکستان کیوں آ رہی تھی۔
”انہوں نے آپ کو فلائٹ کی ٹائمنگز کے بارے میں بتایا ہے؟”
”اسے ایئر پورٹ سے میں ریسیو کر لوں گا۔” جنید نے کہا علیزہ خاموش رہی۔
”وہ یہاں ہماری شادی تک رُکے گی۔” علیزہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا، وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔ ایک عجیب سی خاموشی ان دونوں کے درمیان در آئی تھی۔
”چند دنوں تک امی اور بابا تم لوگوں سے اس سلسلے میں بات کرنے آئیں گے۔” اس نے آہستہ سے کہا۔
”انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اس سلسلے میں تم سے بات کروں تاکہ تم نانو کو اور اپنی ممی کو بتا سکو۔” علیزہ نے اس کے چہرے سے نظر ہٹا لی۔
”میں چاہتا ہوں، شادی سادگی سے ہو۔ میں زیادہ دھوم دھڑکا نہیں چاہتا۔” وہ دھیمی آواز میں بول رہا تھا۔
اس نے جس دن جنید کو اپنے اور عمر کے بارے میں بتایا تھا، اس سے اگلے دن عمر کے ساتھ وہ حادثہ پیش آگیا تھا۔ اس نے جنید سے کہا تھا کہ وہ اسے یہ سب کچھ اس لیے بتا رہی ہے کہ تاکہ حقائق سے آگاہ ہو کر وہ آسانی سے یہ فیصلہ کر سکے کہ اسے ابھی بھی علیزہ سے شادی کرنی ہے یا نہیں۔
پچھلے پندرہ دنوں میں جنید سے اس کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ وہ جنید کی کیفیات اور تاثرات کے بارے میں نہیں جانتی تھی مگر وہ یہ ضرور جانتی تھی کہ جنید کے سامنے ایک بار پھر عمر کے لیے اس کے جذبات اور احساسات عیاں ہو گئے تھے۔
اس نے بڑے وثوق سے عمر کے قتل سے ایک دن پہلے ہوٹل میں بیٹھ کر جنید سے کہا تھا کہ وہ عمر سے محبت کرتی تھی مگر اب نہیں کرتی۔ اس کے اور عمر کے درمیان اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ وہ اب عمر کی اصلیت جان چکی ہے اور اس کی اصلیت جان لینے کے بعد وہ عمر جیسے دھوکہ باز اور خود غرض انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔




وہ جانتی تھی، پچھلے پندرہ دن میں عمر کی موت پر اس کے ردعمل نے جنید پر یہ حقیقت آ شکار کر دی ہو گی کہ وہ اب بھی عمر سے محبت کرتی ہے۔ وہ اتنا بے وقوف نہیں تھا کہ یہ اندازہ نہ کر پاتا ۔ وہ اپنے چہرے کو کبھی بے تاثر رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پائی تھی۔ خوشی اور غم ہر تاثر اس کے چہرے سے جھلکتا تھا اور زندگی میں پہلی بار اسے اپنے چہرے کی اس خوبی پر کوئی شرمندگی نہیں ہوئی، کوئی غصہ نہیں آیا تھا۔
اس نے ان پندرہ دنوں میں ہر بار جنید کا سامنا ہونے پر کبھی یہ ظاہر ہونے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ عمر کی موت سے متاثر نہیں ہوئی کیونکہ وہ اس کے ساتھ اپنا جذباتی تعلق ختم کر چکی تھی۔ وہ اپنی زندگی اور ذات کے گرد چڑھائے گئے ان خولوں سے تنگ آ گئی تھی جنہیں سنبھالتے سنبھالتے وہ پچھلے کئی سالوں سے ہلکان تھی اور شاید وہ لاشعوری طور پر جنید کے سامنے یہ اعتراف بھی کر لینا چاہتی تھی کہ وہ کبھی عمر سے نفرت نہیں کر سکتی۔ اس کی موت اس کی تمام ناراضیوں اور غصے کو ختم کر گئی تھی۔
اور ان پندرہ دنوں کے بعد واحد چیز جس کا وہ سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھی اور جس کی وہ توقع نہیں کر رہی تھی، وہ جنید کی طرف سے شادی کے بارے میں دوبارہ بات تھی۔ وہ اس وقت شادی کے بارے میں بالواسطہ طریقے سے بات کرتے ہوئے یقیناً یہ جتا رہا تھا کہ وہ سب کچھ جاننے کے باوجود اس رشتہ کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔
”کیوں؟” وہ اس وقت اس ایک سوال کے علاوہ اور کچھ پوچھنا نہیں چاہتی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!