”سب کچھ جاننے کے بعد بھی آپ کیوں اس رشتہ کو قائم رکھنا چاہتے ہیں؟” اس نے جنید کے خاموش ہو جانے کے بعد سوال کیا۔ وہ اس کے عقب میں ایستادہ درختوں پر بیٹھے پرندوں پر نظریں جمائے ہوئے تھا ۔علیزہ کو لگا جیسے اس نے اس کی بات نہیں سنی ہو، اس نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔ اس بار جنید نے درختوں سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا۔
”پتا نہیں۔” اس نے ایک گہرا سانس لیا۔
”شاید اس لیے کہ میں تمہارے ساتھ بہت زیادہ انوالو ہو چکا ہوں یا پھر شاید اس لیے کہ میں عمر کی فیملی سے اپنا تعلق ختم نہیں کرنا چاہتا۔ بہت کچھ تو پہلے ہی ختم ہو چکا ہے، جو باقی رہ سکتا ہے۔ میں اسے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔” وہ بڑے ہموار لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”یا پھر شاید اس لیے کہ یہ عمر کی خواہش تھی؟” اس نے جنید کے چہرے پر نظریں جما کر کہا۔ جنید نے اس کی بات کی تردید کی نہ اعتراف۔ وہ ایک بار پھر ان درختوں پر بیٹھے پرندوں کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔
”میں نے پہلی بار عمر سے تمہارا ذکر تب سنا جب وہ سول سروس کا امتحان دینے آیا تھا۔ وہ کچھ دنوں کے لیے ہمارے گھر ٹھہرا تھا۔” علیزہ نے جنید کو جیسے بڑبڑاتے دیکھا۔ وہ ابھی بھی ان ہی پرندوں کو دیکھ رہا تھا۔
علیزہ کو یاد تھا، وہ اس کی ناراضی کی وجہ سے گھر چھوڑ کر کسی دوست کے ہاں شفٹ ہو گیا تھا مگر وہ اس دوست کے بارے میں نہیں جانتی تھی۔
”پھر کچھ دنوں بعد اس نے کہا کہ وہ واپس گرینی کے پاس جا رہا ہے، میں ناراض ہو گیا۔ تب اس نے مجھ سے معذرت کی اور مجھے تمہارے بارے میں بتایا کہ کس طرح تم اس کے وہاں آ جانے پر خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہو اور پھر تم لوگوں کے درمیان دوستی ہو گئی تھی۔ میں نے عمر کی ان باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ میں سمجھتا تھا۔ وہ اس لیے زیادہ ہمدردی محسوس کر رہا ہے کیونکہ وہ خود بھی ایک بروکن فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔” علیزہ اسے دیکھتی رہی۔
”پھر اس کی باتوں میں اکثر تمہارا ذکر ہونے لگا۔ میں نے تب بھی غور نہیں کیا۔ تمہاری اور اس کی عمر میں بہت فرق تھا۔ تم ایک ٹین ایجر تھیں جبکہ عمر بہت میچور تھا۔ میرا خیال تھا وہ تمہارے ساتھ ایک ہی گھر میں رہ رہا ہے اور پھر تم سے ہمدردی بھی کرتا ہے، اس لیے غیر محسوس طور پر تم اس کے قریب آنے لگی ہو۔ میں نے تب بھی یہ اندازہ لگانے کی کوشش نہیں کی کہ تمہارے لیے اس کے دل میں کس طرح فیلنگز ڈویلپ ہو رہی ہیں۔” جنید نے اب علیزہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں تب بھی یہی سمجھتا رہا کہ اس کی سب سے زیادہ دوستی جوڈی کے ساتھ ہی ہے اور اگر کبھی اس نے شادی کی تو وہ اس سے ہی کرے گا۔ وہ دونوں ہم عمر تھے اور بہت لمبے عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔ ان دونوں کی بہت اچھی انڈر سٹینڈنگ بھی تھی۔ میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو وہ یہی سمجھتا۔”
”آپ نے ٹھیک سمجھا۔” علیزہ نے دھیمی آواز میں پہلی بار اس کی گفتگو میں مداخلت کی۔ ”وہ جوڈتھ سے ہی محبت کرتا تھا۔ وہ اسی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔”
”میں سمجھتا تھا۔” جنید نے اس کی بات سن کر بھی اپنی بات جاری رکھی۔ ”میں عمر کے بہت قریب ہوں، اس کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں، اسے بہت اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ ایسا نہیں تھا۔” جنید عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
”یہ صرف میری خوش فہمی تھی، میں یا اس کا کوئی بھی دوست اس کے اندر تک نہیں جھانک سکا۔ اس نے ہمیں اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ ہم اسے صرف اتنا ہی جان سکے، جتنا وہ چاہتا تھا۔” وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ علیزہ کو اس بارے میں کوئی شبہ نہیں تھا۔
”بعد میں اس نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے شادی کر لوں۔ وہ تب فارن سروس میں اپنی پہلی پوسٹنگ پر جا رہا تھا اور میں لندن میں آرکیٹیکچر کی مزید تعلیم کے لیے۔ تم اس وقت گریجویشن کر رہی تھیں۔” علیزہ کو یاد آیا کہ یہ وہ وقت تھا جب اسے مکمل طور پر یہ یقین ہو چکا تھا کہ صرف وہی نہیں، عمر بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ جب وہ یہ سمجھنے لگی تھی کہ بہت جلدی وہ اسے پرپوز کر دے گا اور وہ اس وقت کیا سوچ رہا تھا۔” جنید کو دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی امڈنے لگی۔
”میرا اس وقت شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور عمر کو بھی اس بارے میں کوئی جلدی نہیں تھی ”تم اپنی تعلیم ختم کرو، پاکستان آؤ، پھر تم سے اس بارے میں مزید بات کروں گا لیکن یہ بات طے ہے کہ تمہاری شادی علیزہ کے ساتھ ہی ہو گی۔” وہ مجھ سے کہتا تھا۔
”اگر وہ مجھے اچھی لگی تو، اس کے ساتھ میری انڈر سٹینڈنگ ہو سکی تو۔” میں ہر بار اس سے کہتا اور وہ مجھے یقین دلاتا۔
”علیزہ اور تمہیں اچھی نہ لگے۔ gem of a person ، جنید gem of a person جب بیس، تیس سال تم اس کے ساتھ گزار لو گے تو پھر تم میرے احسان مند ہو گے کہ میں نے دنیا کی سب سے بہترین لڑکی کے ساتھ تمہاری شادی کروا دی۔” مجھے آہستہ آہستہ یہ محسوس ہونے لگا کہ میں عمر کو انکار نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی بات منوا لیا کرتا تھا۔ کچھ سالوں کے بعد جب گھر میں میری شادی کا ذکر ہونے لگا تو عمر نے مجھے تم سے ملوایا مگر یہ کہہ کر میں تم کو عمر سے اپنی دوستی کے بارے میں نہ بتاؤں۔ مجھے تب بھی کوئی تجسس نہیں ہوا۔ اگر اس پورے دورانیے میں مجھے ایک بار بھی یہ خیال آ جاتا کہ وہ خود تم میں انٹرسٹڈ ہے تو میں…میں کسی قیمت پر بھی تم سے شادی کرنے کا نہ سوچتا، یا تم مجھے بتا دیتیں، تو تب بھی میں اس سارے معاملے کے بارے میں عمر سے بات کرتا۔
تمہارا انکشاف میرے لیے میری زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا اور اس شاک سے باہر آنے میں مجھے کئی سال لگیں گے۔”