”عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، بلکہ زیادہ عمر والا مرد اچھے طریقے سے بیوی کو رکھ سکتا ہے۔”
”اور وہ اس صورت میں ہوتا ہے اگر مرد کی عمر اٹھائیس کے بجائے اٹھاون سال ہو اور بیوی کی عمر سترہ کے بجائے ستائیس سال ہو اور شوہر اسامہ اور بیوی علیزہ نہ ہو۔”
”تمہارا خیال ہے،کہ میں سوچے سمجھے بغیر ہی علیزہ کی شادی کر نا چاہ رہی ہوں؟”
نانو نے خفگی سے اس سے پوچھا تھا۔
”گرینی ! اگر آپ واقعی سوچ سمجھ کر یہ سب کچھ کر رہی ہوتیں تو جو کچھ میں نے آپ کو بتایا ہے آپ نے اس پر غور ضرور کیا ہوتا۔ کیا آپ نے ثمینہ پھوپھو سے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ آپ علیزہ کی شادی کرنا چاہتی ہیں؟”
عمر نے نانو سے پوچھا تھا۔
”عمر ! مجھے علیزہ کی شادی کی جتنی جلدی ہے اس کے باپ کو اس سے بھی زیادہ جلدی ہے، اس لئے پہلے تو تم یہ بات ذہن میں رکھو کہ علیزہ کی شادی میں مجھ سے زیادہ اس کا باپ انٹرسٹڈ ہے۔ جہاں تک ثمینہ سے بات کرنے کا تعلق ہے تو ظاہر ہے میں نے اس سے بات کی ہے تب ہی یہ سب کچھ کہہ رہی ہوں وہ دونوں چاہتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو جلد از جلد پو را کر دیں۔”
”ذمہ داری پوری کرنا ایک بات ہوتی ہے اور ذمہ داری سے جان چھڑا نا دوسری بات۔جو کچھ ثمینہ پھوپھو اور ان کے سابقہ شوہر کرنا چاہتے ہیں وہ ذمہ داری سے جان چھڑانا کہلاتا ہے۔”
”عمر ! تم خوامخواہ دوسروں کے معاملے میں دخل اندازی کیوں کر رہے ہو؟”
”میں اس لئے دخل اندازی کر رہا ہوں کیونکہ مجھے علیزہ سے ہمدردی ہے۔ گرینی ! اس نے زندگی کو نہیں دیکھا ہے زندگی کے بارے میں سرے سے اس کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ اس کا کینوس بہت ہی محدود ہے۔ اس کے لئے زندگی ایک ٹرائی اینگل ہے۔ ثمینہ پھوپھو، اس کے پاپا، اور یہ گھر …باہر کی دنیا کیا ہے یہ جاننے کا آپ نے اسے موقع ہی نہیں دیا اور نہ ہی آپ دینا چاہتے ہیں اپ اسے ایک پنجرے سے دوسرے پنجرے میں ٹرانسفر کر دینا چاہتے ہیں۔ میرا نہیں خیال ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے حوالے سے کوئی بھی خواب دیکھے ہوں گے اس کے خوابوں میں بھی ثمینہ پھوپھو اس کے پاپا اور آپ لوگ ہی ہوں گے۔ اسامہ بہت چالاک ہے۔ وہ گزارہ نہیں کر سکتاعلیزہ کے ساتھ۔”
”اچھا ٹھیک ہے اسامہ مناسب نہیں ہے اس کے ساتھ تو ایک دو اور پرپوزل بھی ہیں اس کے لئے میں ان میں سے کسی کو دیکھ لوں گی۔”
”یعنی آپ کو شادی ضرور کرنی ہے اس کی؟”
وہ کچھ جھنجھلا یا تھا۔ ”شادی نہ کروں تو پھر کیا کروں۔”
نانو نے اس سے تیکھے انداز میں پوچھاتھا۔
”اے پڑھنے دیں۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے دیں بلکہ ہو سکے تو باہر بھیج دیں۔ دنیا کو دیکھنے دیں، لوگوں کو سمجھنے دیں ذہنی طور پرکچھ میچور ہونے دیں۔ پھر اس کی شادی کریں تاکہ جس کے ساتھ بھی اس کی شادی ہو وہ وہاں ایڈ جسٹ ہو سکے۔ اپنی اور دوسروں کی زندگی خراب نہ کرے۔”
”اور اس کے باپ سے کیا کہوں؟”
”سمجھائیں انہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انہیں آخر کیا تکلیف ہے ، علیزہ ان کے پاس نہیں رہتی۔ انہیں تو کچھ کرنا نہیں پڑتا تو پھر انہیں اس کی شادی میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟”
”وہ اس کا باپ ہے ، اور علیزہ اس کے ساتھ ہو یا نہ ہو بہرحال وہ اس کے بارے میں سوچتا ہو گا۔ جب تم باپ بنو گے اور بیٹی کے باپ تو پھر تمہیں ان چیزوں کا احساس ہو گا۔”
”اول تو میں شادی نہیں کروں گا اور اگر کی بھی تو کم از کم اس طرح کا باپ نہیں بنوں گا۔ میں اپنی بیٹی کو اتنی آزادی تو ضرور دوں گا کہ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارے، اور کم از کم میں سترہ سال کی عمر میں اس کی شادی کرنے کے بارے میں نہیں سوچوں گا۔”
اس نے کچھ جتانے والے انداز میں گرینی سے کہاتھا۔
”آپ ثمینہ پھوپھو سے بات کریں، کہ ابھی علیزہ شادی کے قابل نہیں ہے۔ اسے اپنی زندگی کو سمجھنے کے لئے ابھی چند سال دیں۔”
”عمر ! تم سمجھتے …۔۔۔” عمر نے ان کی بات کاٹی دی تھی۔
”گرینی ! اس میں ہرج کیا ہے۔ اگر اب شادی کرنے کی بجائے چند سال بعد اس کی شادی کر دی جائے، کیاآپ نے علیزہ سے پوچھا ہے اس کی شادی کے بارے میں؟”
ایک خیال آنے پر اس نے گرینی سے پوچھا۔
”علیزہ سے بھی پوچھ لوں گی، جب شادی طے ہو جائے گی۔ تو اس سے بھی پوچھ لوں گی ابھی تو بات چیت چل رہی ہے۔” عمر نے حیرانی سے گرینی کو دیکھا ۔
”یعنی آپ علیزہ سے پوچھے بغیر اس کی شادی طے کر رہی ہیں۔ گرینی! آپ کو کیا ہوگیا ہے؟”
”کیوں کیا ہوگیا ہے مجھے؟”
”جس لڑکی کی آپ زندگی کا فیصلہ کر رہی ہیں۔ اس سے پوچھنے تک کی زحمت نہیں کی آپ نے اگر اسے اعتراض ہوا تو پھر آپ کیا کریں گی؟”
”علیزہ اعتراض نہیں کرے گی۔ میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں۔”
”پھر بھی گرینی! اس کا حق ہے کہ اس کی شادی کے بارے میں اس سے پوچھا جائے۔ ابھی آپ جلد از جلد اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتی ہیں مگر ایک دو سال کے بعد وہ پھر ڈائی وورس لے کر آپ کے پاس موجود ہوگی شاید اپنی ہی جیسی کوئی اور بچی لے کر پھر آپ کیا کریں گی؟” عمر نے تلخی سے کہا تھا۔