”اتنی ہولناک تصویر پیش مت کرو میرے سامنے اسامہ آخری چوائس تو نہیں ہے اس کے بجائے کسی اور پر غور کیا جاسکتا ہے۔”
”چند سال بعد شادی نہیں کرسکتیں اس کی؟” عمر نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔
”کر سکتی ہوں اگر۔۔۔” نانو کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔
”اگر؟” عمر نے چونک کر پوچھا تھا۔
”کیا تم شادی کرو گے اس سے؟” وہ ان کے اس سوال پر ساکت رہ گیا تھا۔
چند لمحے وہ کچھ کہے بغیر نانو کا چہرہ دیکھتا رہا جو بہت پرسکون اور سنجیدہ نظر آرہی تھیں۔ اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی کیا وہ مذاق تھا یا… مگر وہ کوئی اندازہ نہیں لگاپایا۔ پھر ایک گہری سانس لے کر اس نے ہلکی آواز میں نانو سے کہا۔
”مجھ میں اور اسامہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔”
”کیا مطلب؟”
”گرینی! میں نے آپ کو جو کچھ اسامہ کے بارے میں بتایا ہے وہی سب آپ میرے بارے میں بھی سچ مان لیں۔”
”عمر! میں تمہاری بات سمجھ نہیں رہی۔”
”میں بھی اسامہ سے بہتر نہیں ہوں جو برائیاں اس میں ہیں، وہی مجھ میں بھی ہیں۔ میں بھی علیزہ کو خوش نہیں رکھ سکتا۔” اس کی سنجیدگی میں کچھ اور اضافہ ہوگیا تھا۔
نہ تم علیزہ کو خوش رکھ سکتے ہو نہ اسامہ رکھ سکتا ہے۔ کسی تیسرے کا نام لوں گی تو تم اس میں بھی سو برائیاں گنوا دو گے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ علیزہ کی شادی سرے سے کی ہی نہ جائے۔” نانو کا لہجہ طنزیہ تھا۔
”گرینی میں۔۔۔” عمر نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن نانو نے کچھ تیز اور خشک لہجے میں اس کی بات کاٹ دی۔
”تم علیزہ کو خوش رکھ سکتے ہو لیکن تم اس سے شادی کرنا نہیں چاہتے۔”
”گرینی! میں سرے سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔”
”کیوں نہیں کرنا چاہتے؟”
” بس نہیں کرنا چاہتا۔”
”کوئی وجہ تو ہوگی نا؟” نانو اسے کرید رہی تھیں۔
”میں آزاد زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ کوئی ذمہ داری سر پر لینا نہیں چاہتا۔ ویسے بھی جب ہر چیز شادی کے بغیر مل رہی ہو تو خود کو خواہ مخواہ زنجیروں میں کیوں جکڑا جائے۔”
نانو اس کے جواب سے زیادہ اس کے اطمینان پر حیران ہوئی تھیں۔ ”تمہارا دماغ خراب ہے عمر؟”
”نہیں گرینی! میرا دماغ بالکل ٹھیک ہے۔ میری زندگی کے سارے راستے بالکل صاف اور واضح ہیں اور ان کے متعلق میرے دماغ میں کوئی ابہام (Ambiguity) نہیں ہے۔ میں نے اپنی ساری فیملی کی زندگی سے یہ سیکھا ہے کہ شادی نہیں کرنی چاہیے۔ زندگی گزارنے کیلئے شادی کوئی ضروری نہیں ہے۔ اس کے بغیر میں زیادہ اچھے طریقے سے رہ سکتا ہوں۔”
”جہانگیر کو پتا چلے نا تمہاری اس فلاسفی کا تو وہ تمہاری عقل ٹھکانے لگا دے۔”
”میں نے یہ فلاسفی ان ہی کی زندگی کا جائزہ لے کر بنائی ہے۔”
اس نے نانو کی بات پر خوفزدہ ہوئے بغیر کہا تھا۔ کچھ دیر نانو اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکیں۔ ”میں تم سے علیزہ کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔” کچھ دیر بعد انہوں نے پھر اس سے کہا۔
”علیزہ بہت کم عمر ہے۔ وہ ابھی تک خود کو سمجھ نہیں پائی تو مجھے کیسے سمجھ سکے گی اور شادی کوئی ایک دو دن کا ساتھ نہیں ہوتا۔ یہ ساری زندگی پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھے بغیر زندگی کیسے گزاری جاسکتی ہے۔”
”چلو ٹھیک ہے۔ اب نہیں تو چار سال بعد تو وہ اس قابل ہوسکتی ہے کہ بقول تمہارے ایک اچھی بیوی کی تمام خصوصیات اپنے اندر پیدا کرلے۔ تب کرو گے تم اس سے شادی؟” نانو ابھی بھی اپنی بات پر مصر تھیں۔
عمر پر سوچ انداز میں ان کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔ ”اگر آپ ابھی اس کی شادی ملتوی کردیتی ہیں تو میں وعدہ کرتا ہوں چار پانچ سال بعد ضرور اس سے شادی کے بارے میں سوچوں گا۔”
”صرف سوچو گے؟”
”گرینی! ہر چیز سوچنے سے ہی ہوتی ہے۔”
”مگر کوئی واضح یقین دہانی تو ہونی چاہیے۔”
”میں نے آپ سے کہا نا کہ میں سوچوں گا تو پھر آپ کو اعتبار ہونا چاہیے میری بات پر۔ ٹھیک ہے نا۔ اب آپ علیزہ کی شادی کے بارے میں کچھ مت کیجیے گا۔”
نانو کچھ دیر اسے دیکھتی رہیں اور پھر اچانک ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ لہرائی۔
”تم پسند کرتے ہو نا اسے؟”
وہ ان کی بات پر یک دم چونک گیا۔ ”گرینی! علیزہ کو کوئی بھی ناپسند نہیں کرسکتا۔”
”مگر تمہاری پسندیدگی کی نوعیت مختلف ہے۔” وہ اپنی بات پر مصر تھیں۔
”گرینی! میں۔۔۔” وہ اپنی بات مکمل نہیں کرسکا۔ علیزہ کرسٹی کو اٹھائے ہوئے ایک دم لاؤنج میں داخل ہوئی۔
اس کی آمد اتنی غیر متوقع اور اچانک تھی کہ نانو بھی کچھ گڑبڑا گئیں۔ عمر بات کرتے کرتے خاموش ہوگیا۔
علیزہ کرسٹی کے ساتھ صوفے پر بیٹھ کر خاموشی سے ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہوگئی۔ اس نے غور کرنے کی کوشش نہیں کہ عمر کون سی بات کہتے کہتے رک گیا تھا۔
عمر نے علیزہ کی آمدکو غنیمت جانا اور گرینی سے کسی کام کا بہانا کر کے اٹھ گیا۔ گرینی نے علیزہ کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی کیا اس نے ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی تھی۔ مگر علیزہ کا چہرہ بے تاثر تھا۔ وہ کوئی اندازہ نہیں لگا سکیں۔
٭٭٭