Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”پھر اب کیا طے کیا ہے تم نے؟” نانا اس دوپہر کو کھانے کی میز پر اس سے پوچھ رہے تھے۔
”نہیں گرینڈ پا! پہلے ہی مجھے یہاں بہت دیر ہوگئی ہے۔ اب مجھ کو واپس جانا ہے۔”
”مگر عمر! ابھی تم واپس جا کر کرو گے کیا! چار پانچ ماہ تک تمہارا رزلٹ آئے گا۔ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ تب تک یہیں رہو۔”
”رہنے میں کوئی ہرج نہیں ہے مگر پاپا کے ساتھ یہی طے ہوا تھا کہ پیپرز دینے کے بعد واپس آجاؤں گا اور انٹرویو کی تیاری وہیں کروں گا۔”
”مگر یہاں تم کو زیادہ آسانی ہوگی۔”
”آسانی کی تو خیر کوئی بات نہیں ہے، میرے لیے دونوں جگہ پر ایک ہی بات ہے مگر اب پاپا نے کہا تھا تو ظاہر ہے کہ میرے لیے ضروری ہے کہ واپس چلا جاؤں۔”
نانو نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔ ”جہانگیر سے میں خود بات کر لوں گی اس کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے، مگر تم فی الحال یہیں رہو۔”
نہیں گرینی! مجھے خود بھی وہاں کچھ کام نپٹانے ہیں اس لئے مجھ کو جانا ہو گا۔”
اس نے ایک بار پھر انکار کرتے ہوئے کہا۔



”بھئی، تمہیں اتنا پرابلم کس بات کا ہے؟”
”پرابلم کوئی نہیں ہے گرینی! بس میں اب کچھ اکتا گیا ہوں ایک ہی جگہ رہ کر… کچھ گھومنا پھرنا چاہتا ہوں۔”
”تو یہاں گھومو پھرو… تم نے پاکستان میں کچھ دیکھا ہی نہیں۔”
”یہاں گھومنے کیلئے کیا ہے گرینی؟”
”بہت کچھ ہے، ناردرن ایریاز کی طرف جاؤ گے تو حیران رہ جاؤ گے۔”
”کیوں وہاں ایسا کیا ہے؟”
”تم جاؤ گے تو پتا چلے گا نا کہ وہاں کیا ہے۔”
”گرینی! پہلے تو آپ نے لاہور کی تعریفوں کے انبار لگائے تھے… مگر لاہور میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اب ناردرن ایریاز کی تعریف کر رہی ہیں تو مجھے شک ہے کہ وہاں بھی کچھ نہیں ہوگا۔”
”تم مالم جبہ جاؤ گے تو تمہیں پتا چلے گا کہ میں سچ کہہ رہی تھی یا جھوٹ، اس کے علاوہ بھوربن دیکھنا، سوات اور گلگت چلے جاؤ، تم وہاں بہت انجوائے کرو گے۔” نانو نے پورا پلان سامنے رکھ دیا۔
”اچھا سوچوں گا۔” اس نے ٹالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”گرینی! اکیلا میں کیسے جاؤں۔ آپ کو پتہ ہے میں اکیلا کچھ بھی انجوائے نہیں کرسکتا۔”
”اکیلا جانے کی کیا ضرورت ہے۔ اپنے دوستوں اور کزنز کو ساتھ لے جاؤ۔” انہوں نے فوراً تجویز پیش کی۔
”دوست اور کزنز اتنے فارغ کہاں ہیں کہ میرے ساتھ چل سکیں۔”
”میں ولید کو فون کردوں گی۔ وہ تو فوراً چل پڑے گا تمہارے ساتھ۔” نانو نے اسے پوری طرح گھیر لیا۔
”اچھا میں پہلے پاپا سے بات کر لوں۔” اس نے ایک بار پھر جان چھڑانے کی کوشش کی۔



”میں نے کہا نا جہانگیر سے میں خود بات کر لوں گی۔”
”یعنی گرینی! آپ مجھ کو کسی طرح بھی یہاں سے نکلنے نہیں دیں گی۔” عمر نے کچھ بے چارگی سے کہا۔
” تمہیں چلے تو جانا ہی ہے پھر کیا ہے اگر کچھ عرصہ یہاں ہمارے ساتھ گزار لو۔”
”آپ ابھی تک تنگ نہیں آئیں مجھ سے؟”
”نہیں، تنگ کیوں آؤں گی۔” نانو نے کچھ خفگی سے کہا۔
”بہت خدمتیں کرنی پڑتی ہیں آپ کو میری اس لیے پوچھ رہا ہوں۔”
”نہیں! مجھے اچھا لگتا ہے۔ کم از کم کوئی مصروفیت تو ہے نا۔ گھر میں رونق ہے تمہاری وجہ سے۔”
نانو نے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔ عمر چند لمحے ان کے چہرے کو دیکھتا رہا پھر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے زیر لب کچھ کہا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!