Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”کم از کم میرے پاس کبھی بھی عمر جتنی معلومات نہیں ہوسکتیں۔” اس نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔
”اب جارہی ہو وہاں تو آنکھیں کھلی رکھنا۔ ہر چیز کو اس کی فیس ویلیو پر مت لینا۔ تھوڑا سا بھی ریشنل ہوجاؤ گی تو حقیقت جاننے لگو گی۔ پھر زیادہ متاثر نہیں ہوسکو گی۔” وہ اب اسے ہدایات دے رہا تھا۔
”لیکن میں اب وہاں جانا ہی نہیں چاہتی۔” اس نے اعلان کیا۔ عمر نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟”
”آپ کہہ رہے ہیں کہ وہاں تو ایسی کسی چیز کا وجود ہی نہیں ہے، جس کا جائزہ لینے میں جارہی ہوں تو پھر ٹھیک ہے وہاں جاکر میں وقت کیوں ضائع کروں۔” اس نے جیسے فوراً طے کرلیا تھا۔
”یار! عجیب احمق ہو تم۔۔۔” عمر نے کچھ جھلا کر کہا۔
”پہلے جو آپ کے ڈیپارٹمنٹ نے کہا، آپ نے وہ مان لیا۔ پھر آپ نے میری بات سنی تو اس پر یقین لے آئیں۔ ہوسکتا ہے میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ تم آخر اپنا ذہن استعمال کیوں نہیں کرتیں۔ سچائی کو خود دریافت کرو، اس کے ہر aspect کو investigate کرو مگر مگر یہ کام خود کرو اپنی sense of judgement استعمال کرو۔”
”نہیں تو ٹھیک ہے۔ وہ نہیں جانا چاہ رہی تو نہ جائے، آخر تم خود ہی تو کہہ رہے تھے کہ یہ سب فراڈ ہے۔” نانو نے پہلی بار گفتگو میں مداخلت کی۔



”اچھا یہ سب فراڈ ہے۔ چلیں اس کے بارے میں تو میں نے اسے بتادیا۔ زندگی میں آگے چل کر یہ کیسے جانے گی کہ کون سی چیز کیا ہے اور کیا نہیں۔ ایک بار اپنے دماغ اور اپنی آنکھوں سے کچھ دیکھے گی، کچھ فیصلہ کرے گی تو آگے بھی کچھ کرسکے گی۔ تم ضرور جاؤ گی علیزہ۔ بلکہ واپس آکر مجھے بتانا کہ تم نے وہاں پر کیا کیا سیکھا ہے؟”
عمر کا لہجہ یک دم نرم ہوگیا۔ وہ سوچ میں پڑگئی۔
”جو کچھ میں نے تمہیں بتایا ہے وہ اس لیے نہیں بتایا کہ تم وہاں جانا ہی چھوڑ دو۔ میری کسی بات کو اپنی ذہن پر سوار کرنے کی کوشش مت کرو۔ صرف یہی سمجھو کہ تمہارے پاس ایک اور ورژن آیا ہے اب تمہیں یہ طے کرنا ہے کہ دونوں میں سے کس version میں سچائی ہے۔”
علیزہ نے عمر کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
”آپ کو افسوس نہیں ہوا کہ آپ کی محنت ضائع ہوئی؟”
”نہیں۔ کوئی افسوس نہیں ہوا۔ بیورو کریسی کی ایسی محنتیں اکثر ضائع ہوتی ہیں۔ یہ تو ہماری بے وقوفی تھی کہ ہم نے ایسے کام میں اپنا وقت ضائع کیا۔”
”ایسے تو نہیں سوچنا چاہیے۔ اگر سب لوگ اس طرح سوچیں گے تو۔۔۔”
اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تو ملک کا کیا ہوگا؟ یہی کہنا چاہ رہی ہونا؟” اس نے خاصی بے رحمی سے جملہ مکمل کیا۔
”ملک کا وہی ہوگا جو اب تک ہو رہا ہے۔ میرے یا وجاہت حسین جیسے لوگوں سے کوئی انقلاب نہیں آسکتا اور ہم پر کہاں فرض ہے کہ ہم صرف ملک اور قوم کیلئے ایسی حماقتیں کر کے اپنا کیریئر داؤ پر لگاتے رہیں۔ سول سروس ہم نے سوشل ورک کرنے کیلئے جوائن نہیں کی۔ اپنے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کیلئے اس میں آئے ہیں۔”
علیزہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ وہ یک دم ہی بہت بدلا ہوا نظر آنے لگا تھا اس کے سامنے چند لمحوں کے اندر اندر اس کا نیا روپ آگیا تھا۔ insensitive اور indifferent… کچھ دیر پہلے والا انداز یکسر تبدیل ہوچکا تھا۔
”اب تم کیوں پریشان ہوگئی ہو؟” عمر نے اچانک اس سے پوچھا۔ وہ کچھ گڑبڑا گئی۔
”نہیں، میں پریشان نہیں ہوں۔ میں صرف سوچ رہی ہوں۔”



”مثلاً کیا سوچ رہی ہو؟” اس نے نیپکن سے منہ صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
”یہی کہ۔۔۔” اس نے کچھ محتاط نظروں سے عمر کو دیکھا۔
”کہ ہم لوگ تو گھر کے اندر زندگی گزارتے ہیں ہمارے سامنے چیزوں کا شفاف ورژن آتا ہے اس لیے ہم ہر بات سے بے خبر رہتے ہیں۔ ہمیں کوئی پریشانی ہوتی ہے نہ ہی کوئی خوف محسوس ہوتا ہے اور اسی لیے ہم کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔”
عمر اب منہ صاف کرتے کرتے ہاتھ روک کر گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جو بڑی روانی سے کہہ رہی تھی۔
”مگر وہ لوگ جن کی زندگیاں گھر سے باہر گزرتی ہیں۔ جن کے بقول وہ چیزوں کے اصل ورژن سے واقف ہوتے ہیں، جنہیں سب کچھ پتا ہوتا ہے۔ جو خود کو باخبر کہتے ہیں وہ ان چیزوں کے سدباب کیلئے کیا کرتے ہیں۔ صرف باتیں؟”
وہ عمر کے تاثرات دیکھے بغیر ٹیبل سے اٹھ گئی۔ عمر نے حیرانی اور خاموشی کے ساتھ اسے باہر جاتے دیکھا چند لمحے وہ اس دروازے کو دیکھتا رہا جہاں وہ غائب ہوئی تھی پھر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”صرف باتیں؟… Good” اس نے نانو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اس کے لہجے میں ستائش تھی۔ ”علیزہ! مجھ پر طنز کر کے گئی ہے گرینی اور مجھے خوشی ہوئی ہے۔” وہ مسکراتے ہوئے ٹیبل سے اٹھ گیا۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!