”آؤ کچھ دیر وہاں بیٹھتے ہیں۔” اس نے کہا۔ علیزہ نے خاموشی سے اس کی تقلید کی۔ بینچ پر بیٹھنے کے بعد دونوں کچھ دیر تک پارک میں پھرنے والے لوگوں کو دیکھتے رہے۔
”کراچی میں کیا ہوا تھا علیزہ؟”
بہت نرم اور مدھم آواز میں ایک جملہ اس کے قریب گونجا اس کی ساری حسیات یک دم بیدار ہوگئیں۔ گردن موڑ کر اس نے عمر کو دیکھا وہ اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
”تمہیں کونسی چیز پریشان کر رہی ہے؟” اس بار سوال ذرا مختلف انداز میں دہرایا گیا۔
”کراچی میں کچھ نہیں ہوا… اور مجھے… مجھے کوئی چیز پریشان نہیں کررہی… اور … اگر آپ مجھ سے دوبارہ اس طرح کی کوئی بات پوچھیں گے تو میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔” عمر نے اس کے چہرے پر بے تحاشا خوف دیکھا مگر وہ اسی طرح پرسکون تھا۔
”ٹھیک ہے، میں مان لیتا ہوں کہ کراچی میں کچھ نہیں ہوا اور تم پریشان بھی نہیں ہوا۔ پھر پیپرز میں کیا ہوا؟” اس کا لہجہ ابھی بھی نرم تھا۔
”کچھ نہیں ہوا۔ بس میں… میں ڈفر ہوں، ڈل ہوں، مجھے کچھ نہیں آتا، مجھے کچھ آہی نہیں سکتا۔”
”یہ سب تمہیں کس نے بتایا؟” وہ اب بھی اطمینان سے پوچھ رہا تھا۔
”میں نے خود سے سوچا ہے۔”
”غلط سوچا ہے۔”
”نہیں بالکل ٹھیک سوچا ہے۔”
”ایک ٹیسٹ میں ہونے والی ناکامی تمہارے لیے اتنی بڑی چیز بن گئی ہے۔”
وہ جواب میں کچھ بول نہیں سکی۔ عمر کو اچانک احساس ہوا کہ وہ رو رہی تھی۔ پارک میں اندھیرا اتنا بڑھ چکا تھا کہ وہ اس کے چہرے پر پھیلنے والی نمی کو دیکھ نہیں سکتا تھا اور وہ شاید اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے آواز رو رہی تھی۔
”آنسو بہانے کے بجائے تم اپنے پرابلمز کو حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتیں۔”
”میں نہیں کرسکتی۔ میں کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ میرا کوئی فائدہ نہیں۔ نہ خود کو نہ کسی دوسرے کو… نانو ٹھیک کہتی ہیں میں ہمیشہ دوسروں کے سامنے ان کی بے عزتی کا باعث بنتی ہوں۔ میں نے سوچ لیا ہے اب میں کچھ نہیں کروں گی۔ میں کالج بھی نہیں جاؤں گی۔”
وہ اب بچوں کی طرح بلکتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”اسٹڈیز چھوڑ دو گی پھر گھر میں رہ کر کیا کرو گی؟”
”کچھ بھی نہیں کروں گی۔ میں اپنی ساری پینٹنگز کو جلاؤں گی پھر کرسٹی کو مار دوں گی اور پھر خود بھی مرجاؤں گی۔”
”بکواس مت کرو علیزہ۔” اسے جیسے کرنٹ لگا تھا۔
”آپ دیکھنا میں ایسا ہی کروں گی۔ میں ایسا ہی کروں گی… میرے ہونے یا نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی کو میری ضرورت ہی نہیں ہے۔ میں Unwanted ہوں۔” اس کے دل کو بے اختیار کچھ ہوا۔ وہ اب چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ کر رو رہی تھی۔
”علیزہ! میں تمہاری پروا کرتا ہوں، مجھے ضرورت ہے تمہاری۔” وہ اب اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہا تھا۔
”مگر تم میرے باپ نہیں ہو… تم میری ماں بھی نہیں ہو۔ مجھے ان دونوں کی ضرورت ہے۔ میں چاہتی ہوں وہ پروا کریں میری۔ مگر… مگر ان کی زندگی میں میرے لیے کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔”
وہ چہرے سے ہاتھ ہٹا کر اس کا بازو پکڑے بچوں کی طرح کہہ رہی تھی۔
”مجھے ان کے روپے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے ان دونوں کی ضرورت ہے۔ مجھے اپنے گھر کی ضرورت ہے جہاں مجھے آزادی ہو جہاں میری اہمیت ہو۔ مگر ان کے گھروں میں میرے لیے جگہ نہیں ہے۔ ایک کمرہ تک نہیں ہے۔”
وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ اب بے اختیار اسے سب کچھ بتاتی جارہی تھی۔
”پتا ہے پاپا نے کیا کیا میرے ساتھ؟… وہ کراچی میں گھر بنوا رہے ہیں گھر میں سب کیلئے کمرے ہیں بس میرے لیے نہیں ہے۔ میں یاد بھی نہیں آتی۔ وہ سب مری جارہے تھے سیر کیلئے مجھے کسی نے کہا تک نہیں۔”
وہ خاموشی سے اس کے آنسو دیکھتا اور شکوے سنتا رہا۔
”ممی مجھے ہر سال اپنے پاس بلاتی ہیں مگر وہ بھی اپنے پاس رکھنے کو تیار نہیں۔ انہیں صرف اپنے بچوں کی پروا ہوتی ہے۔ اپنے شوہر کی فکر ہوتی ہے۔ میری نہیں۔ میں سوچتی ہوں پھر میری زندگی کا کیا فائدہ۔ جب میں اپنے پیرنٹس پر ہی بوجھ بن چکی ہوں۔”
وہ ایک بارپھر پھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔
”بس یا، ابھی تم کو کچھ اور کہنا ہے؟”
اس کے کندھے پر بازو پھیلا کر اس نے بڑے نرم لہجے میں پوچھا۔ وہ خاموشی سے روتی رہی۔