Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”جب آپ جاب کررہے تھے تو آپ نے کبھی اپنا گھر بنانے کی کوشش نہیں کی؟”
”لندن میں جاب کرتا تھا علیزہ!اتنی بڑی جاب نہیں تھی کہ گھر خرید لیتا۔ ایک کرائے کا فلیٹ… تھا کمپنی کی طرف سے۔ چھوٹا سا تھا۔ صبح ساڑھے چھ نکلتا تھا رات کو ساڑھے نو واپس آتا تھا، صرف سونے کیلئے ہی اسے استعمال کرتا تھا۔ لندن اتنا مہنگا شہر ہے کہ وہاں گھر وغیرہ بنانے کا بندہ نہیں سوچ سکتا۔ پھر میں نے تو ویسے بھی بہت زیادہ عرصے کیلئے جاب نہیں کی۔ پاپا مسلسل مجبور کر رہے تھے فارن سروس کیلئے بس اسی طرح وقت گزر گیا۔”
علیزہ کو کچھ شرمندگی ہوئی اس کا عمر کے بارے میں ہمیشہ سے یہ خیال تھا کہ وہ اپنے گھر میں انکل جہانگیر کے ساتھ بہت اچھی زندگی گزار رہا ہے۔ اسی لیے نانو کے پاس آنے پر وہ اس طرح برہم ہوگئی تھی مگر وہ اسے کچھ اور ہی بتا رہا تھا۔
”مگر انکل جہانگیر تو آپ سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔۔” وہ پتا نہیں کیا جاننا چاہ رہی تھی۔ جواب میں ایک طویل خاموشی چھپائی رہی۔
”انکل جہانگیر تو آپ سے محبت کرتے ہیں؟” علیزہ نے اس بار قدرے بلند آواز میں اپنا سوال دہرایا۔
”کیا…! ہاں…! محبت… ہوسکتا ہے کرتے ہوں۔”
”یہ کیا بات ہوئی؟” اس کے غیر متوقع جواب نے علیزہ کو حیران کیا۔ ”آپ کو نہیں پتا کہ وہ آپ سے محبت کرتے ہیں یا نہیں؟”
”نہیں میں نے کبھی اس ٹاپک کو ڈسکس نہیں کیا… ہمارے درمیان اور ٹاپکس پر بات ہوتی ہے۔”
”مگر وہ آپ سے محبت کرتے ہیں۔” اس نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”اچھا!” عمر نے یوں کہا جیسے علیزہ نے اسے کوئی نئی بات بتائی ہو۔



”کتنی فرینڈز ہیں تمہاری؟” عمر نے یک دم بات کا موضوع بدل دیا۔
”بس ایک… میں نے آپ کو پہلے بھی ایک بار بتایا تھا۔” علیزہ نے جواب دیا۔
”ہاں… شہلا… یہی نام ہے نا؟” علیزہ کو حیرت ہوئی اسے نام تک یاد تھا۔
”ہاں آپ کو پتا ہے تو پھر کیوں پوچھ رہے ہیں؟”
”بس ایسے ہی… تمہاری بہت زیادہ دوستی ہے اس کے ساتھ؟”
”ہاں۔”
”بہت اچھی ہوگی؟”
”ہاں۔” اسے اب عمر سے بات کرتے ہوئے کوئی گھبراہٹ یا الجھن نہیں ہو رہی تھی۔ وہ بے اختیار اس کی باتوں کے جواب دے رہی تھی۔
”اور کوئی فرینڈ نہیں ہے۔”
”نہیں۔”
”میں بھی نہیں؟” وہ جواب دیتے ہوئے کچھ الجھی۔
”آپ بھی ہیں۔۔۔”
”شہلا جتنا کلوز فرینڈ ہوں؟” اس بار پوچھا گیا۔
”نہیں اتنا تو نہیں۔” علیزہ نے کچھ سوچ کر کہا۔
”اچھا چلو فرینڈ تو ہوں نا؟”
”ہاں۔”
”بس ٹھیک ہے۔ اسی خوشی میں، میں تمہیں کچھ کھلاتا ہوں۔ بلکہ تم بتاؤ تمہیں کیا کھاناہے؟”
”کچھ بھی نہیں۔”
”کم آن یار… آج آوارہ گردی کرتے ہیں… کہیں سے کچھ کھاتے ہیں… چلو برگر لیتے ہیں پھر آئس کریم کھائیں گے۔ آج رونے میں تم نے خاصی انرجی ویسٹ کی ہے۔ اب ضروری ہے یہ سب کچھ۔”
عمر نے اٹھتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے عمر کا ہاتھ تھام لیا۔
ریس کورس کے دوسرے گیٹ سے وہ جیل روڈ پر نکل آئے۔ عمر اب اسے لطیفے سنا رہا تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے بچے کی طرح اس کا ہاتھ تھامے اس کے تیز قدموں کا تعاقب کرتی اس کی باتوں پر کھکھلانے لگی تھی۔
ایک لمبا چکر کاٹ کر وہ شادمان کی طرف نکل آئے۔ فٹ پاتھ پر لگے ہوئے برگر کے ایک اسٹال سے انہوں نے برگر خریدے اور پھر بے مقصد مارکیٹ میں ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے برگر کھاتے رہے۔
علیزہ کو اچانک احساس ہونے لگا عمر اتنا برا نہیں تھا جتنا سمجھ رہی تھی۔ اسے اس کے ساتھ اس طرح پھرنا اچھا لگ رہا تھا۔ عجیب سی آزادی اور اعتماد کا احساس ہو رہا تھا۔
برگر ختم ہونے کے بعد عمر اسے آئس کریم کھلانے کیلئے اسی طرح ایک اور اسپاٹ پر لے گیا۔
”چار کون دے دیں۔” اس نے آئس کریم مشین کو آپریٹ کرنے والے سے کہا۔ علیزہ نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
”چار کیوں؟”
”یار دو، دو کھائیں گے۔” اس نے اطمینان سے روپے نکالتے ہوئے کہا۔
”مگر میں تو ایک کھاؤں گی۔”



”نہیں یار آئس کریم کون ایک کھاتا ہے؟ ہمیشہ دو کھاتے ہیں۔ اگر اپنے روپے خرچ کر رہے ہوں… اور اگر کوئی دوسرا کھلا رہا ہو تو پھر تین اور چار بھی کھائی جاسکتی ہیں۔” اس نے جیسے علیزہ کو پتے کی بات بتائی تھی۔
”مگر ایک وقت میں دو کیسے کھاؤں گی؟” اس نے عمر کے ہاتھ سے کون پکڑتے ہوئے کہا۔
”یہ تمہیں میں سکھاؤں گا۔ تم آؤ تو سہی۔”
اس نے خود بھی اپنی دونوں کونز پکڑتے ہوئے کہا پھر وہ بڑی برق رفتاری سے بیک وقت دونوں کونز کھانے لگا۔ اس کی مہارت یہ ظاہر کر رہی تھی کہ وہ کام کرنے کا عادی تھا۔
علیزہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے خود بھی اسی کی طرح آئس کریم کھانے کی کوشش کر رہی تھی مگر آئس کریم پگھلنے لگی تھی۔ مین روڈ پر آتے آتے آئس کریم اس کے دونوں ہاتھ اور کلائیوں پر پگھل کر بہنے لگی تھی۔ عمر اس وقت تک دونوں کونز تقریباً ختم کرچکا تھا۔ ساتھ چلتے ہوئے اس نے علیزہ کو کچھ افسوس بھرے انداز میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیا کرو گی یار! تم زندگی میں… یہ اس قدر ضروری کام تمہیں نہیں آتا۔ مجھے کم از کم تم سے یہ توقع نہیں تھی۔”
واپس جیل روڈ پر آتے ہوئے اس کی آئس کریم ختم ہوچکی تھی مگر دونوں ہاتھ پگھلی ہوئی آئس کریم سے لتھڑے ہوئے تھے۔
”اب یہ دیکھیں، میرے ہاتھ گندے ہوگئے ہیں۔ انہیں کیسے صاف کروں؟” علیزہ نے اسے ہاتھ دکھاتے ہوئے کہا۔
”اپنی شرٹ سے صاف کرو، جیسے تم روتے ہوئے اپنے آنسو صاف کرتی ہو۔” عمر نے کچھ شرارتی انداز میں کہا۔ وہ کچھ جھینپ گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!