Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

باب 19

”پھر کب تک آجاؤ گی؟” نانو نے شاید دسویں بار پوچھا۔
”نانو! پرسوں شام تک واپسی ہو جائے گی۔” علیزہ نے دسویں بار بھی اتنے ہی تحمل سے جواب دیا۔
”تم جب تک واپس نہیں آجاتیں، مجھے فکر رہے گی۔”
”فکر کرنے والی کون سی بات ہے نانو! میں کون سا اکیلی جارہی ہوں۔” علیزہ نے انہیں تسلی دی۔
”پھر بھی علیزہ! پتا نہیں وہاں کیسا ماحول ہو؟ کیسے لوگ ہوں؟”
”اچھے لوگ ہوں گے۔ پہلے بھی ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے بہت سے گروپ کئی سال سے وہاں جارہے ہیں۔ ظاہر ہے اچھے لوگ ہوں گے تب ہی تو بار بار ہمارا ڈیپارٹمنٹ وہاں جاتا ہے۔”
علیزہ نے آخری بار اپنے بیگ کو چیک کرتے ہوئے بند کیا۔
”پتا نہیں تم وہاں کیسے رہو گی۔ گاؤں ہے۔”
”نانو! کچھ نہیں ہوتا۔ میں کون سا ساری عمر کیلئے وہاں جارہی ہوں۔ دو ہی دن کی تو بات ہے پھر آجاؤں گی نا۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔



”اپنے ساتھ پانی رکھ لینا تھا گاؤں کا پانی صاف نہیں ہوگا۔ صفائی بھی تو نہیں ہوتی وہاں۔”
”اب میں پانی تو ساتھ لے کر نہیں جاؤں گی، جیسا پانی سب پئیں گے میں بھی پی لوں گی۔” علیزہ نے صاف انکار کردیا۔
”تم بیمار ہوجاؤ گی۔”
”کچھ نہیں ہوگا نانو! اب میں اسٹڈی ٹور پر جارہی ہوں اور جن لوگوں کی زندگیوں کو آبزرو کرنے جارہی ہوں ان کے ساتھ پانی بھی نہ پیوں تو پھر تو میں بس جھوٹ ہی لکھوں گی۔ سوشیالوجی ہے میرا سبجیکٹ۔ نانو! آپ کچھ تو سوچیں۔”
”سوشیالوجی یہ تو نہیں کہتی کہ بندہ اپنی صحت کا خیال بھی نہ رکھے۔”
”نانو! وہ لوگ بھی وہی کچھ کھا پی کر زندہ ہیں جو آپ کے نزدیک ہائی جینک نہیں ہے اس لیے دو دن وہ سب کچھ کھا کر میں بھی فوت نہیں ہونگی۔”
”ان لوگوں کو عادت ہے’ وہ اسی ماحول میں پلے بڑھے ہیں، مگر تمہیں تو عادت نہیں ہے تم اور طرح کے ماحول میں پلی ہو۔” نانو اب بھی اپنی بات پر مصر تھیں۔
”اچھا۔ میں صبح جاتے ہوئے دیکھوں گی۔” علیزہ نے مزید بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور انہیں ٹال دیا۔
”دیکھوں گی نہیں۔ میں نے ایک چھوٹے بیگ میں ٹن رکھوا دیئے ہیں۔ کوشش کرنا۔ کوئی فضول چیز وہاں سے مت کھاؤ۔ کل کا کھانا تو میں صبح تمہارے ساتھ دے دوں گی۔ شام تک کیلئے کافی ہوگا اور پرسوں تم ان ٹن کو استعمال کرنا۔”
نانو اسے ہدایات دے رہی تھیں۔ وہ چپ چاپ سنتی رہی۔ کھانا ساتھ لے جانے میں کوئی ہرج نہیں تھا۔ سب مل کر اس کھانے سے اچھی انجوائے منٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس نے سوچا تھا۔



اس کی کلاس اسٹڈی ٹور پر دو دن کیلئے ڈسکہ کے قریب کسی گاؤں میں جارہی تھی۔ دو دن کے قیام کے دوران انہیں اس گاؤں اور اس سے ملحق علاقوں میں پچھلے کچھ سالوں میں این جی اوز کی طرف سے ہونے والی دیہی اصلاحات کا جائزہ لینا تھا اور پھر اس پر ایک رپورٹ بھی تیار کرنی تھی۔
علیزہ اس ٹور کی اطلاع پر سب سے زیادہ ایکسائیٹڈ تھی۔ اسے پہلی بار کسی گاؤں میں جانے کا موقع ملا تھا اور نہ صرف وہاں جانے کا موقع ملا تھا۔ بلکہ وہاں رہنے کا بھی موقع مل رہا تھا۔ اس سے پہلے ہونے والے تمام اسٹڈی ٹورز کسی نہ کسی طرح لاہور اور اس کے گرد و نواح تک ہی محدود رہے تھے۔ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ لوگ اتنی دور جارہے تھے۔ گاؤں میں ان کے قیام کا بندوبست وہاں کے کچھ زمیندار گھرانوں میں کیا گیا تھا۔
نانو نے بہت آسانی سے اسے جانے کی اجازت نہیں دی تھی لیکن بہرحال دے دی تھی اور علیزہ کیلئے اتنا ہی کافی تھا اور اب صبح سویرے اسے یونیورسٹی سے اپنے سفر کا آغاز کرنا تھا اور رات کو وہ اپنی پیکنگ کر رہی تھی جب نانو نے اس کے سر پر کھڑے ہو کر ہدایات دینی شروع کردیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!