Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

کھانے کی میز پر نانو نے یہ خبر عمر کو بھی دی۔ وہ سالن کے ڈونگے میں سے سالن نکالتے نکالتے رک گیا۔
”کیوں علیزہ! گاؤں میں کیا کرو گے تم لوگ؟”
”تھوڑی بہت ریسرچ کریں گے۔”
”جا کہاں رہے ہو؟”
علیزہ نے اسے گاؤں کا نام بتایا۔
”کس چیز کے بارے میں ریسرچ کرنی ہے۔” وہ بہت متجس نظر آرہا تھا۔
”وہاں پچھلے کچھ سالوں سے چند این جی اوز کافی کام کر رہی ہیں سوشل ڈویلپمنٹ اور دیہی اصلاحات کے حوالے سے ان ہی کے کام کا جائزہ لینا تھا۔ ان کا طریقہ کار اور اتنی کامیابی سے وہاں کیسے کام کر رہی ہیں۔”
اس نے بڑی سنجیدگی سے بتانا شروع کیا مگر اس کے جواب پر عمر کا ردعمل حیرت انگیز تھا۔ وہ بے اختیار قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا اور پھر کافی دیر تک ہنستا ہی رہا۔ علیزہ کچھ شرمندہ ہوگئی۔ اسے اپنی ہتک کا احساس ہوا تھا۔
”کیا ہوا عمر؟ ہنس کیوں رہے ہو؟” نانو نے بھی کچھ حیران ہو کر عمر کو دیکھا جس کا چہرہ اب سرخ ہو رہا تھا۔ پھر اچانک اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے پانی کا گلاس ہاتھ میں لے لیا۔ پانی کے چند گھونٹ لینے کے بعد اس نے علیزہ سے کہا۔
”تو آپ وہاں ان چیزوں پر ریسرچ کرنے جارہی ہیں؟”
علیزہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ چہرے پر خفگی کے تاثرات کے لئے کھانا کھانے میں مصروف رہی۔ عمر اس کی خفگی کو جیسے بھانپ گیا تھا۔
”یہ جو تم لوگوں کا ڈیپارٹمنٹ وہاں اسٹڈی ٹور کیلئے جارہا ہے، یہ خود سے جارہا ہے یا کسی کے invitation پر؟” علیزہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
”میرا مطلب ہے، کوئی اسپانسر کر رہا ہے اس ٹور کو؟” اس نے وضاحت کی۔
”ہاں وہاں کام کرنے والی ایک این جی او۔” علیزہ نے مختصراً جواب دیا۔



اور عمر نے اس کا جواب سن کر بڑی روانی اور اطمینان کے ساتھ اس این جی او کا نام دہرا دیا۔ علیزہ حیران رہ گئی۔
”آپ کیسے جانتے ہیں کہ ہمیں اس این جی او نے اسپانسر کیا ہے۔”
”بس ہمارے بھی کچھ سورسز ہیں۔” وہ اب اطمینان سے چاول کھانے میں مصروف ہوگیا۔
”آپ ہنسے کیوں تھے؟” اس بار علیزہ نے اس سے کچھ کڑے تیوروں سے پوچھا۔
عمر ایک بار پھر مسکرایا۔ ”بس ایسے ہی… وہ تم کہہ رہی تھیں این جی او کی کامیابیاں اور طریقہ… وہ سوشل ڈویلپمنٹ… ہاں اور وہ دیہی اصلاحات تو بس مجھے ہنسی آگئی۔”
”اس میں ہنسنے والی تو کوئی بات نہیں ہے۔” علیزہ کچھ برہم ہوگئی۔
”اگر بندہ ایک ایسی چیز پر ریسرچ کرنے جارہا ہو جس کا کوئی وجود ہی نہیں تو پھر میرے جیسے بندے کو تو ہنسی آئے گی۔”
”کیا مطلب؟”
”علیزہ بی بی! وہاں جا کر اپنا وقت ضائع مت کریں ہم سے پوچھیں ساری انفارمیشن آپ کو گھر بیٹھے دے دیں گے۔ آپ بس حکم کریں۔”
اس کی مسکراہٹ بے حد معنی خیز تھی۔
”میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔”وہ الجھ گئی۔ ”این جی او وہاں اس قسم کا کوئی کام نہیں کر رہی ہیں جس کے بارے میں آپ ابھی اعلان فرما رہی تھیں۔ یہ ساری این جی اوز ڈونر ایجنسیز کے روپے کے بل بوتے پر چلتی ہیں اور یہ ڈونر ایجنسیز یورپین ہوتی ہیں یا امریکن اور انہیں ان کی گورنمنٹ پیسے دیتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکہ یا یورپ یہاں دیہی اصلاحات پر اپنا روپیہ ضائع کریں گے۔ علیزہ بی بی! جس ملک کی ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہو وہاں دیہی اصلاحات کا مطلب ہے کہ آپ نے اس ملک کی اکانومی کو صحیح ڈائریکشن دی اور ترقی کیلئے ایک سنگ بنیاد رکھ دیا۔ کون سا ملک اتنا احمق ہوگا کہ وہ اپنا روپیہ دوسرے ملک کی ترقی یا بقول آپ کے دیہی اصلاحات پر لگائے۔ وہاں این جی اوز ایسا کچھ بھی نہیں کر رہی۔ وہ کچھ اورکر رہی ہیں۔”



وہ اپنی پلیٹ میں کچھ اور چاول نکالتے ہوئے کہتا جارہا تھا۔
”یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ پچھلے کئی سال سے ہمارے ہیڈ آف دا ڈیپارٹمنٹ وہاں ہمارے ڈیپارٹمنٹ کو بھجواتے رہے ہیں اور وہ سب لوگ وہی سب کچھ لکھتے رہے ہیں جو میں بتا رہی ہوں اور پھر انٹرنیشنل میڈیا بھی تو کافی عرصے سے وہاں این جی اوز کی کارکردگی پر لکھتا رہا ہے۔ میڈیا کو دھوکا کیسے دیا جاسکتاہے؟”
عمر نے کھانا کھاتے ہوئے اچانک سر اٹھا کر علیزہ کے سامنے اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں اٹھا دیں۔
”یہ کتنی انگلیاں ہیں علیزہ؟” بڑی ملائمت سے اس سے پوچھا گیا۔ وہ اس سوال پر گڑ بڑا گئی اس کے چہرے سے اندازہ نہیں کر پائی کہ وہ سنجیدہ تھا یا مذاق کر رہا تھا۔
”دو” بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
”گڈ… یہ دو انگلیاں جو آپ کو دو نظر آتی ہیں، یہ اس لیے دو ہیں کیونکہ میں نے آپ کو دو ہی انگلیاں دکھائی ہیں۔ تین یا چار نہیں… لیکن دو انگلیاں نظر آنے کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ میرے ہاتھ میں باقی تین انگلیاں نہیں ہیں مگر ان تین انگلیوں کو میں ضرورت کے وقت دکھاؤں گا۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!