Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

علیزہ الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
”آپ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ایک بہت بڑے الو ہیں… نہیں شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ ہم لوگوں کے نزدیک الو ہوسکتے ہیں، ہو سکتا ہے وہ ان معاملات میں خاصی سمجھداری کا مظاہرہ کر رہے ہوں۔” وہ پرسوچ انداز میں کہہ رہا تھا۔
”کیا مطلب؟”
”مطلب یہ ہے علیزہ بی بی کہ یورپ میں الو کو ایک خاصا عقلمند جانور سمجھا جاتا ہے۔ آپ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بھی ایسے ہی الو ہوسکتے ہیں۔”
علیزہ کچھ کہے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی وہ اب خاصی لاپروائی سے پانی پینے میں مصروف تھا۔ ” این جی او بہت عرصے سے اگر آپ کے ڈیپارٹمنٹ کو یہاں کے دورے کروا رہی ہے تو یقیناً ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کو بھی کچھ نہ کچھ پیش کرتی رہی ہوگی۔ ڈالرز کی کمی تو نہیں ہوتی ان این جی اوز کے پاس۔”
پانی کا گلاس نیچے رکھ کر وہ ایک بار پھر بولنا شروع ہوچکا تھا۔
”مگر وہ کیوں دیں گے انہیں ڈالرز؟” اسے شاک لگا۔
”تاکہ آپ کا ڈیپارٹمنٹ وہاں کے اسٹڈی ٹورز کر کے رپورٹس بناتا رہے اور یہ این جی او ہمیشہ گورنمنٹ کی گڈ بکس میں رہے۔ نام بنتا رہے۔ ریپوٹیشن بہتر سے بہتر ہوتی جائے۔ آپ کا ڈیپارٹمنٹ کوئی واحد ڈیپارٹمنٹ نہیں ہوگا جسے وہاں کے وزٹ کروائے جاتے ہیں۔ دوسری بہت سی یونیورسٹیز کے ڈیپارٹمنٹس کو بھی اس طرح بلایا جاتا ہوگا۔ خود سوچو ملک کی دس بارہ اچھی یونیورسٹیز کے کچھ اچھے ڈیپارٹمنٹس کو این جی اوز بار بار انوائٹ کریں اس کے بعد وہ لوگ اپنی ریسرچ میں یا رپورٹس میں اس خاص این جی او کا ذکر اچھے لفظوں میں کریں تو کتنا بڑا ہتھیار ہے یہ اس این جی او کے ہاتھ میں جسے وہ کبھی بھی استعمال کرسکتی ہے۔” وہ اب قدرے سنجیدہ نظر آرہا تھا۔



”کیا این جی اوز اس علاقے میں کچھ نہیں کررہیں؟” علیزہ نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
”نہیں وہ کر رہی ہیں… اپنا کام وہ بڑی مستعدی سے کر رہی ہیں مگر وہ کام بہرحال ان کاموں میں شامل نہیں ہے جن کا ذکر تھوڑی دیر پہلے آپ کر رہی تھیں۔ یہ لوگ وہاں پچھلے کئی سالوں سے کچھ ڈیٹا اکٹھا کرنے میں مصروف تھے بلکہ کرچکے ہیں۔”
”کیسا ڈیٹا؟”
‘ یہ جو علاقہ ہے ڈسکہ، سیالکوٹ، نارووال اور اس کے اردگرد کے سارے دیہات یہ پچھلے بہت سے سالوں سے بین الاقوامی طور پر بہت مشہور ہو رہے ہیں اور ان پر خاصی نظر رکھی جارہی ہے۔ کیوں نظر رکھی جارہی ہے؟ اس کی بہت سے وجوہات ہیں۔ یہ علاقے مشہور اسپورٹس گڈز کی وجہ سے ہیں۔ سرجیکل انسسٹرومنٹس کا کام بھی ہوتا ہے مگر اصل وجہ شہرت اسپورٹس گڈز ہی ہیں اور اسپورٹس گڈز میں بھی فٹ بال۔ اس وقت یورپ امریکہ میں استعمال ہونے والا اسی فیصد فٹ بال اسی علاقے سے آتا ہے۔”
وہ اب بڑی سنجیدگی سے اسے تفصیلات بتا رہا تھا۔ چند لمحے پہلے والی مسکراہٹ اس کے چہرے سے غائب ہوچکی تھی۔
”لیکن یہ فٹ بال adidas کی اسٹیمپ کے ساتھ پوری دنیا میں سپلائی کردیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں جو فٹ بال سینٹس میں تیار ہوتا ہے وہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں ڈالرز میں بکتا ہے۔”
علیزہ کی دلچسپی ختم ہوتی جارہی تھی۔
”مگر اس سارے معاملے کا این جی اوز کے ساتھ کیا تعلق ہے؟”



عمر نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”اب یہ سارا فٹ بال وہاں کی فیکٹریز میں تیار نہیں ہوتا۔ عجیب بات ہے لیکن نوے فیصد فٹ بال وہاں کے دیہی ایریا میں تیار ہوتا ہے… گاؤں میں… چھوٹے چھوٹے گھروں میں عورتیں اور خاص طور پر بچے تیار کرتے ہیں۔ وہاں سے یہ فٹ بال فیکٹریز میں جاتا ہے۔ ان فیکٹریز میں جنہوں نے joint venture کیا ہوا ہے ملٹی نیشنل کمپنیز کے ساتھ اور اب تک وہاں پر ان کمپنیز کا ہولڈ تھا جن کا تعلق امریکہ سے ہے مگر کچھ عرصے پہلے وہاں کچھ جاپانی کمپنیز نے بھی جوائنٹ وینچرز کرنا شروع کردیئے ہیں اور اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ وہاں فٹ بال کے حوالے سے دو بڑے حریف ہیں۔ ایک وہ فرم جس کا adidas کے ساتھ وینچر ہے اور دوسری وہ جس کا جاپانی کمپنی کے ساتھ وینچر ہے۔ اس دوسری کمپنی نے adidas کے بزنس کو خاصا نقصان پہنچایا۔ ان لوگوں نے بہت ہی پروفیشنلی کام کرتے ہوئے ان دیہی علاقے کے کافی اندر تک رسائی حاصل کی اور وہ عورتیں اور بچے جو پہلے گھروں میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے باقاعدہ انہیں ملازم رکھا اور اپنی فیکٹریز تک لانا شروع کردیا۔ پھر ورکرز کیلئے فیسیلیٹیز کی بھرمار کردی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں اچھے ورکرز نے اس نئی فرم کیلئے کام کرنا شروع کردیا۔ adidas کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ فٹ بال کے بزنس کے حوالے سے کیونکہ ان کیلئے کام کرنے والوں کی تعداد میں کمی ہوگئی اور دوسری طرف جس فٹ بال کی اسٹچنگ سات آٹھ روپے میں ہوتی تھی وہ یک دم گیارہ بارہ روپے میں پڑنے لگا کیونکہ ورکرز نے زیادہ روپیہ مانگنا شروع کردیا۔ دوسری طرف یہ بھی ہوا کہ امریکہ میں فٹ بال کا ورلڈ کپ ہونے والا ہے پھر اولمپکس… بھی آرہے ہیں۔ اس لیے وہاں اس وقت فٹ بال کی بہت ڈیمانڈ ہے اور بہت مہنگی بک رہی ہے تو فٹ بال کی مارکیٹ میں امریکی کمپنیز کا حصہ کچھ کم ہوگیا ہے۔ پہلے جو فٹ بال صرف امریکن لیبل کے ساتھ بک رہا تھا اب وہ جاپانی لیبل کے ساتھ بکنے لگا۔ تیسری طرف یورپ تھا جس کی مارکیٹ میں امریکی اور جاپانی لیبلز نے افراتفری مچائی ہوئی ہے۔ کم از کم فٹ بال کے حوالے سے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!