Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”کیسے ہو سکتا ہے یہ تو مجھے نہیں پتا مگر یہی ہو رہا ہے۔ تمہارا ڈیپارٹمنٹ اتنے سالوں سے اس علاقے میں آجارہا ہے مگر میرے جتنی انفارمیشن نہیں ہوگی۔ اس علاقے کے بارے میں ہر چیز میری فنگر ٹپس پر ہے۔ کچھ پوچھ لو۔ پاپولیشن کے بارے میں، کسی لوکیشن کے بارے میں، کسی فیکٹری کے بارے میں، کسی این جی او کے بارے میں یا اور کسی چیز کے بارے میں۔ پھر 95 کا اکنامک سروے آف پاکستان کھولنا اور تصدیق کرلینا۔” عمر کے لہجے میں اسے عجیب سا فخر محسوس ہوا۔
”پھر آپ نے کیا کیا؟” اس نے کچھ بے تاب ہو کر پوچھا۔
”کیا کیا؟ مطلب؟” عمر پانی پیتے پیتے رک گیا۔
”آپ نے جب یہ ریسرچ کی تو آپ نے اس سب سے گورنمنٹ کو مطلع کیا؟”
عمر کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔”ہاں گورنمنٹ کو مطلع کیا۔ باقاعدہ رپورٹ سب مٹ کی۔”
اس نے پانی پی کر کہا۔
”پھر گورنمنٹ نے ایکشن لیا؟”
”بالکل لیا۔ بلکہ فوری طور پر لیا۔”
”گورنمنٹ نے کیا کیا؟” اس کا تجسس اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔
”وجاہت حسین کو امریکہ سے زمبابوے ٹرانسفر کردیا گیا اور مجھے پاپا نے بلوا کر کہا کہ میں فارن سروس میں ہوں انٹیلی جنس میں نہیں اس لیے اپنے کام سے کام رکھوں اور فضول معاملات میں اپنی ٹانگ نہ اڑاؤں۔”
وہ شاکڈ رہ گئی۔ عمر کے چہرے پر کمال کا اطمینان تھا۔
”اور رپورٹ… رپورٹ کا کیا ہوا؟” اس نے ایک بار پھر پوچھا۔
”رپورٹ کی ایک ایک کاپی سوینئر کے طور پر میں نے اور وجاہت نے رکھ لی جو کاپی گورنمنٹ کو بھجوائی تھی، وہ انہوں نے تبرک کے طور پر امریکہ کے فارن آفس کو بھجوا دی۔” وہ مزے لے لے کر بتا رہا تھا۔
”کیا؟” وہ تقریباً چلا اٹھی۔



”ہاں! ٹھیک بتا رہا ہوں۔ رپورٹ سب مٹ کروانے کے ایک ہفتے کے اندر یہ سب کچھ ہوا اور پھر تقریباً ایک ہفتے کے بعد ایک سفارتی ڈنر میں امریکہ کے فارن آفس سے تعلق رکھنے والے، جان پہچان والے ایک آفیسر نے بڑی بے تکلفی سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے اتنے اچھے ”ریسرچ ورک” کیلئے مبارکباد دی ساتھ یہ بھی کہا کہ آئندہ بھی اگر ایسا کوئی پراجیکٹ کرنے کا ارادہ ہوتو وہ اسے اسپانسر کردیں گے۔ مجھے اخراجات کا کوئی پرابلم نہیں ہوگا۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس بار یہ رپورٹ حاصل کرنے میں انہیں دو دن لگ گئے کیونکہ پاکستان سے منگوانا پڑی۔ آئندہ میں کرٹسی کے طور پر ایک کاپی انہیں پہلے ہی بھجوا دوں تو انہیں بڑی خوشی ہوگی۔”
علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ ہنسے یا روئے۔ وہ ہونقوں کی طرح عمر کا چہرہ دیکھتی رہی۔ عمر نے مسکرا کر کہا۔
”بالکل یہی ایکسپریشن میرے بھی تھے اس وقت۔ بعد میں، میں نارمل ہوگیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے تم ہوجاؤ گی۔”
علیزہ نے ایک گہری سانس لی۔ ”آپ نے کوئی احتجاج نہیں کیا؟”
”میں نے تو نہیں کیا۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا۔ ہاں وجاہت نے احتجاج کیا۔ اس نے زمبابوے جانے سے انکار کردیا تو اسے کہا گیا کہ پھر وہ ریزائن کردیں۔ تو اس نے ریزائن کردیا۔ دراصل وہ سیلف میڈ بندہ تھا۔ پتا نہیں بچتے بچاتے کیسے اتنے اونچے عہدے پر پہنچ گیا۔ اس کی کوئی بیک نہیں تھی۔ بیک ہوتی تو شاید اس کے ساتھ یہ سب کچھ نہ ہوتا۔”
علیزہ کو بے اختیار وجاہت حسین پر ترس آیا۔
”پھر اب… اب وہ کیا کر رہے ہیں؟”
”عیش کر رہا ہے۔”
”کیا مطلب؟”
”ریزائن کرنے کے تیسرے دن اس کو ورلڈ بینک سے جاب کی آفر ہوگئی۔ اس نے وہاں کام شروع کردیا۔ اس وقت وہ تقریباً ایک لاکھ ڈالر کی تنخواہ پر کام کر رہا ہے۔ اصل میں ہوا یہ کہ وہ رپورٹ ان لوگوں نے بھی دیکھی۔ وہ بڑے متاثر ہوئے اس بندے سے۔ جان گئے کہ اس میں بڑی صلاحیت ہے بس پھر وہ اس کے پیچھے پڑ گئے۔ اب وہ وہیں ہے نیویارک میں۔”
علیزہ کے پاس جیسے لفظ نہیں رہے تھے۔ وہ اس کے سامنے کون سا پینڈورا باکس کھول رکھاتھا۔
”مگر وجاہت حسین نے کیوں جوائن کیا ورلڈ بینک… سب کچھ جانتے ہوئے بھی؟”
”تو کیا کرتا۔ بھوکا مرتا۔ایک تو اسے حب الوطنی کی بیماری اوپر سے ایمانداری کی بیماری۔ اس سے زیادہ Fatal combination کوئی نہیں ہوسکتا کسی پاکستانی کیلئے۔ پاکستان میں آجاتا تو دھکے کھاتا ان خوبیوں کے ساتھ اور دھکے کسی کو بھی اچھے نہیں لگتے۔ پھر اس کے بیوی بچے تھے۔ ذمہ داریاں تھیں اس پر۔ اس نے جو کیا بالکل ٹھیک کیا۔ میری طرح اس کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا مگر کچھ دیر سے۔”
”عمر! یہ کوئی غلط کام نہیں ہے جو آپ نے کیا یا جو انہوں نے کیا۔”



”کیوں غلط کام نہیں ہے۔ ہماری آفیشل ڈیوٹیز میں تو یہ کام نہیں آتا تھا۔ انٹیریئر منسٹری کا کام تھا یہ ظاہر ہے۔ ہم نے ان کے کام میں ٹانگ اڑائی۔”
”مگر عمر! آپ یہ نہ کرتے تو شاید سب کچھ چھپا رہتا۔” اس نے جیسے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
”نہیں علیزہ بی بی! ہماری غلطی یہی تھی کہ ہم جانے بوجھے حقائق کو دریافت کرنے چل پڑے تھے حالانکہ وہ باتیں سب کو پتا تھیں۔” اس نے علیزہ کو ایک بار پھر چونکایا۔
”کیا مطلب؟”
”ہاں، انٹیریئر منسٹری اچھی طرح واقف تھی یہاں تک کہ ایجنسیز بھی۔ ہماری طرح کے کئی الّو ایسی ہی رپورٹس تیار کر کے پیش کرچکے تھے۔ اس علاقے میں جاؤ گی تو یہ دیکھ کر حیران ہو جاؤ گی کہ ان این جی اوز کے دفاتر کینٹ کے علاقے میں ہیں اور ظاہر ہے یہ تو ناممکن ہے کہ آرمی کے علاقے میں ہونے والی ایسی سرگرمیاں آرمی کی ایجنسیز سے خفیہ ہوں مگر وہ بھی صرف رپورٹس دے دیتے ہیں۔ کچھ کر نہیں سکتے اس لیے ہم نے کوئی ایسا نیا اور انوکھا کام نہیں کیا۔”
وہ اب سویٹ ڈش پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ علیزہ کو عمر پر رشک آیا۔ اس کی باخبری نے اسے ہمیشہ کی طرح متاثر کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!