اسے ایک بار پھر اپنے مسکارے کی فکر ہونے لگی تھی۔ ”ٹھیک ہے تم خرید لو ہوٹل۔” اس نے جیسے جہانگیر کو گرین سگنل دیا۔
”میں اسی لیے تمہیں اس شخص سے ملوانا چاہتا ہوں۔ یہ شخص خاصا رومینٹک ہے۔ میں چاہتا ہوں تم اس سے تعلقات بڑھاؤ اور پھر اس سے کہو کہ یہ ہوٹل مجھے فروخت کرے اور نسبتاً کم قیمت پر۔”
زارا نے بے یقینی سے مڑ کر جہانگیر کو دیکھا تھا۔
”میں سمجھی نہیں، تم کیا کہہ رہے ہو؟”
”اتنی مشکل بات نہیں ہے۔ تم اتنی خوبصورت ہو۔ تمہیں مردوں کو چارم کرنا آتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اس آدمی پر بھی اپنے ہتھیاروں کا استعمال کرو، مجھے یقین ہے کہ تمہارے سامنے یہ مزاحمت نہیں کرسکے گا۔ پھر وہ ہوٹل مجھے مل جائے گا۔”
اس بار اس نے پہلے سے بھی صاف اور واضح لفظوں میں اپنی بات دہرا دی۔ زارا کیلئے مردوں کو رجھانا اور لبھانا نئی بات نہیں تھی وہ ایک ایسے ہی پروفیشن سے منسلک رہی تھی جس میں بہت سی ایڈورٹائزنگ ایجنسیز اپنے کلائنٹس سے خاص طور پر اسے ملواتی رہی تھیں تاکہ وہ ان ایجنسیز کیلئے بزنس حاصل کرسکے اور بدلے میں وہ ایجنسیز اپنے اشتہارات میں صرف اسے ہی لیتیں۔ اسے کبھی یہ سب برا بھی نہیں لگا کیونکہ وہ جانتی تھی یہ اس پروفیشن کی ضرورت تھی اور ماڈلنگ کے شعبے سے منسلک ہر لڑکی یہی کرتی تھی اگر وہ یہ نہ کرتی تو شہرت اور مقبولیت کی اس سیڑھی پر بھی نہ پہنچتی جہاں وہ پہنچ گئی تھی۔ مگر یہ سب اس کے پروفیشن کا حصہ تھا اور وہ اس پروفیشن کو چھوڑ چکی تھی۔ اب ذاتی زندگی میں وہی سب کچھ کرنا اور پھر شوہر کے کہنے پر کرنا…؟
”تمہیں پتا ہے’ تم کیا کہہ رہے ہو جہانگیر؟” اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”اچھی طرح۔ مگر ہم لوگ جس سوسائٹی میں ہیں وہاں آگے بڑھنے کیلئے یہ سب کچھ کرنا ہی پڑتا ہے اور میرا خیال ہے۔ اس میں کوئی بری بات نہیں۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ترقی کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔” وہ مطمئن تھا۔
”مگر یہ مناسب نہیں ہے۔”
”کم آن زارا! کم از کم تم تو یہ بات نہ کرو۔ یہ سب کچھ تمہارے لیے تو نیا نہیں ہے۔”
”تم جس پروفیشن سے منسلک رہی ہو، کیا تم یہ سب کچھ نہیں کرتی رہیں۔”زارا کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
”میں وہ پروفیشن چھوڑ چکی ہوں۔”
”لیکن میں چاہتا ہوں کہ اب تم میرے لیے وہی کرو جو تم پہلے اپنے لیے کرتی تھیں۔ اگر تمہاری وجہ سے مجھے کچھ فائدہ پہنچ جائے تو اس میں برا کیا ہے۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔
”پھر تم یہ سب کرنے والی اکیلی نہیں ہو، تم سفیر کی بیوی کو دیکھو، مجھے رشک آتا ہے اس بندے کی قسمت پر۔ وہ الو صرف بیوی کی وجہ سے اتنے بڑے ہاتھ مار رہا ہے اور وہ بھی کامیابی کے ساتھ بیورو کریسی میں کامیابی کا آدھا انحصار بیوی پر ہوتا ہے جس کی بیوی جتنی زیادہ خوبصورت اور سوشل ہوگی، وہ اتنی ہی جلدی کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا جائے گا۔”
وہ ناپسندیدگی سے اس کی فلاسفی سن رہی تھی۔
”تم سے شادی کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ تم میں ایک غیر معمولی چارم تھا۔ میں تو خیر ہر عورت کو دیکھ کر اس پر فدا ہو جاتا ہوں مگر تمہارے سامنے میں نے ایسے مردوں کو بھی بچھتے ہوئے دیکھا جو عورتوں سے خاصا بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔”
”تو یہ محبت نہیں تھی؟” زارا کو پتا نہیں کیوں اس کی بات سے تکلیف پہنچی۔
”تم اور میں جس عمر میں ہیں، اس میں ٹین ایجرز والی احمقانہ قسم کی محبتیں تو نہیں ہوسکتیں۔ اس عمر میں بندہ بہت سوچ سمجھ کر محبت کرتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ محبت کے بدلے میں اسے کیا مل سکتا ہے اور پھر ہی کوئی فیصلہ کرتا ہے۔” وہ اب اسے لیکچر دے رہا تھا۔
”اب دیکھو نا۔ تم نے بھی تو مجھ سے محبت کرتے ہوئے بہت کچھ دیکھا ہوگا۔” وہ اب اسے آئینہ دکھا رہا تھا۔ ”یہ دیکھا ہوگا کہ میرا کیریئر کیا ہے۔ میں کس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں۔ دیکھنے میں کیسا ہوں۔ میرا اسٹیٹس کیا ہے۔ میرے ساتھ تمہاری زندگی کیسی گزرے گی۔ میں تمہیں کتنی سکیورٹی دے سکتا ہوں۔ کیسا مستقبل دے سکتا ہوں۔”
زارا کا چہرہ زرد ہوگیا۔
”اسی طرح میں نے بھی کچھ چیزیں دیکھی تھیں۔ تم خوبصورت تھیں مشہور تھیں۔ تمہیں مردوں کو ہینڈل کرنا آتا تھا اور مجھے ایسی ہی بیوی چاہیے تھی کیونکہ جس پروفیشن سے میں تعلق رکھتا ہوں وہاں ایسی ہی بیوی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب محبت کا جہاں تک تعلق ہے تو ظاہر ہے محبت بھی ہے۔ آخر میں نے شادی کی ہے تم سے ویسے بھی میں جو کچھ حاصل کرنا چاہ رہا ہوں۔ یہ ہم دونوں کیلئے ہی ہے، کیا تم نہیں چاہتیں کہ ہمارے پاس اس جاب سے حاصل ہونے والی مراعات کے علاوہ بھی کچھ ہو۔ آخر اس جاب کے بل بوتے پر تو ہم زندگی کو انجوائے نہیں کرسکتے۔ میرا اور تمہارا جو لائف اسٹائل ہے وہ اس تنخواہ میں تو maintain نہیں کیا جاسکتا۔ تنخواہ تو دو دن میں ختم ہوجائے گی پھر مہینے کے اٹھائیس دن تم اور میں کیا کریں گے۔”
وہ اب اسے حقائق بتارہا تھا۔