Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنا چاہتا ہوں اور یقیناً تم بھی بہت کچھ حاصل کرنا چاہتی ہوگی۔”
وہ اس سے کہہ نہیں سکی کہ وہ ایک گھر، شوہر اور بچوں کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتی۔ کم از کم زندگی کے اس حصے میں۔ وہ بولتا جارہا تھا۔
”ان سب چیزوں کو حاصل کرنے کیلئے دولت ضروری ہے۔ اب دولت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے یہ ہمیں پلان کرنا ہے۔ انسان کے ہاتھ میں پاور ہو تو پھر دولت کا حصول مشکل نہیں ہوتا اور میں بھی اپنی اسی پاور کو استعمال کرنا چاہتا ہوں۔”
وہ مایوس ہو رہی تھی۔
جہانگیر معاذ کی شخصیت کا ایک اور پہلو اس کے سامنے آرہا تھا۔
”سعید سبحانی سے ملنے والا وہ ہوٹل آئندہ چند سالوں میں کتنی مالیت کا ہوجائے گا اس کا شاید تم اندازہ بھی نہ کرسکو وہ شخص اس ہوٹل کو ایک دوسری جگہ کرنے والی انویسٹمنٹ کی وجہ سے بیچنے پر مجبور ہے اور میں چاہتا ہوں اس شخص کی کمزوری کا فائدہ اٹھاؤں اور تم یہ کام بخوبی کرسکتی ہو۔” وہ اب مسکراتے ہوئے زارا کو دیکھ رہا تھا۔ وہ مسکرا نہیں سکی۔



مگر اس نے وہی کیا تھا جو جہانگیر چاہتا تھا جہانگیر نے سعید سبحانی سے اس کی ملاقات کروا دی تھی اور زارا نے اپنی خوبصورتی کا بھرپور استعمال کیا تھا۔ اگلے کئی ماہ سعید سبحانی کے ساتھ اس کی ملاقاتیں جاری رہیں۔ ملاقاتیں کس کس حد کو پار کرتی رہیں۔ جہانگیر اس سے بے خبر نہیں تھا مگر زارا کو اس اطمینان پر حیرت ہوئی، وہ صرف اس بات پر خوش تھا کہ سعید سبحانی بالآخر یہ ہوٹل جہانگیر کو بیچنے پر تیار ہوگیا بلکہ مارکیٹ پرائس سے کم پرائس پر جہانگیر کے پاس اس ہوٹل کو خریدنے کیلئے روپیہ کہاں سے آیا تھا وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی مگر وہ یہ ضرور جانتی تھی کہ یہ روپیہ وہ اپنی تنخواہ میں سے بچا سکتا تھا نہ ہی اس نے کسی سے قرض لیا تھا۔
سعید سبحانی کے ساتھ جس دن اس نے اس ہوٹل کا سودا کیا تھا اور امریکہ میں رہائش پذیر اپنے ایک دوست کے نام پر وہ جائیداد خریدی تھی۔ اس دن اس نے زارا کو ہیروں کا ایک قیمتی ہار تحفہ کے طور پر دیا تھا۔ زارا کو پہلی بار اس کا کوئی تحفہ لے کر خوشی نہیں ہوئی۔ وہ جانتی تھی یہ تحفہ نہیں قیمت ہے اس کام کی جو اس نے جہانگیر کیلئے کیا تھا اور جو اب اسے بار بار کرنا پڑے گا۔
اس کا اندازہ ٹھیک تھا۔ وہ ہوٹل صرف پہلا قدم تھا اور پہلا قدم اٹھانے کے بعد جہانگیر معاذ کو روکنا بہت مشکل تھا زارا لندن کی تقریبات کا ایک بہت مقبول نام بن گئی تھی ایسا نام جس کے بارے میں صرف اچھی باتیں ہی نہیں اور بھی بہت کچھ کہا جاتا تھا۔
جہانگیر کا اس کے بارے میں اندازہ بالکل ٹھیک تھا، وہ واقعی غیرمعمولی کشش رکھتی تھی اور بہت جلد اس نے سفارت خانے کے تمام آفیسرز کی بیویوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا مگر وہ اس سب سے بہت خوش نہیں تھی جہانگیر سے شادی کرتے وقت اس نے ایسی زندگی گزارنے کا خواب نہیں دیکھا تھا۔ وہ اسٹیٹس بھی برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ اسے جہانگیر سے دلچسپی بھی اس کے کیریئر اور فیملی کی وجہ سے ہوئی تھی مگر اس کے باوجود ان کی چیزوں کی جو قیمت اسے ادا کرنی پڑ رہی تھی وہ بہت زیادہ تھی۔



وہ بنیادی طور پر اس چمک دمک سے بیزار ہوچکی تھی اور عمر کی پیدائش ان چیزوں سے نجات کی ایک کوشش تھی، اس کا خیال تھا کہ بچے کی پیدائش جہانگیر کو بدل دے گی، جہانگیر کی پیسے کیلئے ہوس میں کمی آجائے گی یا کم از کم وہ پیسے کے حصول کیلئے اسے استعمال کرنا چھوڑ دے گا۔
مگر اس کا اندازہ غلط تھا۔ جہانگیر یہ جاننے پر کہ وہ امید سے ہے۔ بہت مشتعل ہوگیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے کیریئر کی اس اسٹیج پر بچے جیسی کوئی مصیبت پالنا نہیں چاہتا مگر زارا کم از کم اس معاملے پر اس کے دباؤ میں نہیں آئی تھی۔ جہانگیر کی دھمکیوں کے باوجود اس نے ابارشن نہیں کروایا تھا اور بالآخر جہانگیر اس کی اس ضدکے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
عمر کی پیدائش پر زارا بے حد خوش تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اب جہانگیر اسے پہلے کی طرح استعمال نہیں کرے گا اور وہ مطمئن ہو کر اس طرح اپنے بچے کی پرورش کرسکے گی جیسا وہ چاہتی تھی۔ عمر کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد تک وہ واقعی بہت اطمینان اور سکون کے ساتھ تقریبات میں شرکت کیے بغیر زندگی گزارتی رہی مگر جہانگیر آہستہ آہستہ ایک بار پھر اسے وہیں لے آیا تھا اور پہلی بار زارا کو اندازہ ہوا کہ عمر جہانگیر کے پیروں کی زنجیر نہیں بنا خود اس کے پیروں کی زنجیر بن گیا تھا۔
فطری طور پر وہ عمر کے بہت قریب تھی اور جہانگیر کے ساتھ تقریبات میں جاتے ہوئے وہ سارا وقت اس کے بارے میں فکر مند رہتی۔ جہانگیر نے اس کی پیدائش کے فوراً بعد ہی عمر کو گورنس کے سپرد کردیا تھا اور زارا کے لاکھ احتجاج کے باوجود بھی وہ اسے ہٹانے پر تیار نہیں ہوا۔
اگلے کچھ سال زارا نے شدید ڈپریشن میں گزارے تھے۔ وہ مکمل طور پر اس زندگی سے تنگ آچکی تھی جو وہ جہانگیر کے ساتھ گزار رہی تھی۔لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ عمر کے ساتھ وقت گزارنے میں ناکام رہتی تھی اور یہ بات اس کے ڈپریشن میں اور اضافہ کرتی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!