شاید وہ اس سب کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سمجھوتا کرتے ہوئے زندگی گزارتی رہتی مگر جس چیز نے اسے مشتعل کردیا تھا وہ جہانگیر کی ایک دوسری عورت میں لی جانے والی دلچسپی تھی۔ زارا کچھ عرصہ تک یہ سب نظر انداز کرتی رہی کہ ساتھ گزارے جانے والے دس سالوں میں اس نے جہانگیر کی زندگی میں بہت سی عورتیں آتی اور جاتی دیکھی تھیں اور وہ ان کے بارے میں فکر مند نہیں ہوتی تھی مگر ثمرین نام کی وہ لڑکی جہانگیر کی زندگی میں کس حد تک شامل ہوچکی تھی، اس کا اندازہ اسے کبھی نہیں ہوا۔ جہانگیر نے اسے مکمل طور پر ثمرین سے بے خبر رکھا تھا۔ وہ ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ کی بیٹی تھی۔ جہانگیر کے ساتھ اس کی ملاقات کب اور کہاں ہوئی۔ زارا نہیں جانتی تھی مگر جب اسے ثمرین کے وجود کا پتا چلا تھا تو زندگی میں پہلی بار وہ اپنی شادی کے اس فیصلے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی۔
اس کے پاس اب ایک دوسرا راستہ تھا۔ جہانگیر کے ساتھ لڑنے جھگڑنے کے بجائے اس نے اپنے بھائی کے پاس جانے کے بعد جہانگیر سے طلاق کیلئے مقدمہ کردیا تھا۔ جہانگیر کیلئے یہ ایک بہت بڑا جھٹکا تھا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ زارا کبھی اس سے طلاق مانگ سکتی ہے وہ خود بھی ثمرین کی محبت میں گرفتار ہونے کے باوجود زارا کو طلاق نہیں دینا چاہتا تھا۔زارا دس سالوں میں صحیح معنوں میں سونے کی چڑیا ثابت ہوئی تھی اور شاید اگلے کئی سال وہ اس کیلئے اتنی ہی فائدہ مند ہوتی جبکہ ثمرین خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ کم عمر تھی اور جہانگیر جانتا تھا کہ وہ زارا کی طرح مردوں کو لبھا نہیں سکتی۔
اس نے زارا سے رابطہ کیا تھا مگر وہ کسی بھی صورت واپس آنے پر تیار نہیں تھی۔ ”میں دوسری شادی کرنا چاہتی ہوں۔ تم بھی دوسری شادی کرلو ہم دونوں خوش رہیں گے۔”
وہ اس کے الفاظ پر دنگ رہ گیا تھا۔ اس کے بعد جتنی دفعہ بھی اس نے زاراسے رابطہ کیا تھا اس کی زبان پر یہی سب کچھ تھا۔ وہ عمر کو اپنی کسٹڈی میں لینا چاہتی تھی مگر جہانگیر کے ساتھ کسی سمجھوتے پر تیار نہیں تھی۔ جہانگیر کو اس کی ضد نے مشتعل کردیا تھا۔
”ٹھیک ہے، تم طلاق لے لو مگر عمر کو میں کسی بھی صورت تمہیں نہیں دوں گا۔” اس نے زارا سے کہا تھا۔
طلاق کے بعد زارا نے اپنے بھائی کے ایک بڑی عمر کے ایرانی دوست کے ساتھ شادی کرلی تھی اور یہ شادی بے حد کامیاب رہی تھی۔ اس کے دوسرے شوہر کی پہلی بیوی کا انتقال ہوچکا تھا اور اس کی بیٹی کی شادی ہوچکی تھی۔ زارا سے شادی کے بعد ان کے ہاں دو بیٹے ہوئے۔ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ لندن میں سیٹلڈ تھی اور بہت پرسکون زندگی گزار رہی تھی مگر اس کے باوجود اس نے کبھی بھی عمر کو فراموش نہیں کیا۔ جہانگیر نے عمر کو ایک بورڈنگ میں داخل کروا دیا اور زارا کوشش کے باوجود عمر سے ملنے یا اسے دیکھنے میں ناکام رہی مگر اس سب کے باوجود وقتاً فوقتاً اسے کچھ نہ کچھ بھجواتی رہتی جو زیادہ تر جہانگیر کے ہاتھ لگتا اور وہ اسے ضائع کردیتا۔
جہانگیر نے اسے طلاق دینے کے کچھ عرصہ بعد ہی ثمرین سے شادی کرلی تھی اور ثمرین کو کوشش کے باوجود وہ زارا کی طرح استعمال نہیں کرسکا وہ صرف ایک اچھی بیوی اور ماں ہی بن سکتی تھی۔ عمر کے ساتھ اس کے تعلقات سرد رہے نہ بہت خوشگوار اس کی وجہ یہ تھی کہ عمر ہمیشہ بورڈنگ میں رہا۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران اور بعد میں انگلینڈ میں جاب کے دوران بہت دفعہ زارا نے عمر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر عمر نے کبھی بھی اس سے جوابی رابطہ نہیں کیا وہ ماں سے محبت کرنے کے باوجود بچپن سے باپ کے دباؤ پر ماں سے ملنے سے انکار کرتا رہا حتیٰ کہ کورٹ میں کسٹڈی کیس کے دوران بھی اس نے ماں سے ملنے سے انکار کردیا۔ بچپن میں چند بار ماں کی طرف سے ملنے والے کچھ تحائف اور کارڈ وصول کرنے کے بعد جہانگیر کی طرف سے اٹھایا جانے والا ہنگامہ اسے ہمیشہ یاد رہا تھا اور غیر محسوس طریقے سے وہ اس ہنگامہ سے بچنے کی کوشش کرتا رہا۔