باب 24
چند گھنٹوں کے بعد وہ این جی او کے کچھ لوگوں کے ساتھ سیالکوٹ کے ایک قریبی گاؤں میں تھے۔ گاؤں میں وہ سیدھا اس حویلی میں گئے تھے۔ جہاں ان کے رہنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ کچھ دیر ان لوگوں نے وہاں آرام کیا اس کے بعد ان لوگوں کو این جی او کے زیرانتظام چلنے والے ایک اسکول میں لے جایا گیا۔
علیزہ کو وہاں موجود بچوں کی تعداد دیکھ کر بہت حیرت ہوئی تھی۔ وہ اسکول گاؤں کے ہی ایک شخص کے گھر میں قائم کیا گیا تھا۔ جہاں اس شخص کی بیٹی دو شفٹوں میں بچوں کو تعلیم دیتی تھی۔
” اس گاؤں میں چند سال پہلے تک گورنمنٹ کی طرف سے قائم شدہ ایک سکول بھی تھا۔ ایک دفعہ سیلاب کے دوران اسکول کی چار کمروں پر مشتمل عمارت بہہ گئی۔ بعد میں گورنمنٹ نے دوبارہ اسکول قائم کرنے کی زحمت نہیں کی۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسکول آنے والے بچوں کی تعداد بہت کم تھی۔ گورنمنٹ کا خیال تھا کہ قریبی گاؤں میں موجود اسکول بھی دونوں گاؤں کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔”
ان لوگوں کے گروپ کے ساتھ چلنے والے گائیڈ نے ساتھ چلتے ہوئے انہیں بتانا شروع کیا۔
”گاؤں والوں نے اس لیے اس پر اعتراض نہیں کیا کیونکہ وہ پہلے ہی یہاں اسکول کی موجودگی کو ناپسند کر رہے تھے۔ انہوں نے خس کم جہاں پاک کے مصداق اس اقدام پر شکر ادا کیا۔ یہ صرف اسی گاؤں میں نہیں ہوا آس پاس کے بہت سے علاقوں میں ایسا ہی ہوتا آرہا تھا۔ لڑکوں کو پڑھانے پر تو یہاں کے لوگوں میں پھر بھی کچھ آمادگی پائی جاتی تھی مگر لڑکیوں کے پڑھانے کے بارے میں بات بھی کرنے پر یہ لوگ سر پھاڑنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح نہ صرف ان کے علاقے کی روایات ختم ہوجائیں گی بلکہ عورتیں منہ زور ہوجائیں گی اور گھر کے مردوں کی حکمرانی ختم ہوجائے گی۔”
علیزہ دلچسپی سے گفتگو سن رہی تھی۔
”آپ لوگ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کے گھروں میں جاکر انہیں اپنی بات سننے کیلئے تیار کرنا کتنا مشکل کام تھا اور اس سے بھی مشکل کام اس علاقے میں کوئی تبدیلی لانا تھا۔ ہماری ورکرز نے یہاں شام چھ بجے سے رات نو بجے تک بھی گھر گھر پھر کر کام کیا۔ اب آپ نتیجہ دیکھ سکتے ہیں یہ اسکول اس علاقے میں چلنے والا واحد اسکول نہیں ہے آپ یہاں جس گاؤں میں بھی جائیں گے۔ آپ کو اس طرح کا کوئی نہ کوئی اسکول کام کرتا ضرور ملے گا اور صرف اسکول ہی نہیں ہوگا بلکہ وہاں بچوں کی اچھی خاصی تعداد تعلیم حاصل کرتی بھی پائی جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب ان اسکولوں کو قائم کرنے میں بنیادی ہاتھ یہاں کے لوگوں کا ہوگیا ہے۔ وہ خود ہی اس کیلئے عمارت اور دوسری چیزوں کا انتظام کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض دفعہ ہمیں ٹیچر کیلئے بھی بھاگ دوڑ نہیں کرنی پڑتی کچھ گاؤں میں ایسا بھی ہوا کہ ایک اسکول میں جب بچوں کی تعداد زیادہ ہونے لگی تو گاؤں والوں نے خود ہم سے ایک دوسرے اسکول کے قیام میں مدد کی درخواست کی۔”
گروپ میں موجو باقی لوگ بھی اس طرح دم بخود اس شخص کی باتوں کو سن رہے تھے۔
”تو ہم بنیادی طور پر جس چیز کو کرنے میں کامیاب ہوئے وہ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی تھی۔ اس وقت 95ء ہے ہمارا اندازہ ہے کہ 2000ء تک ہم اس علاقے میں لٹریسی کا تناسب بہت زیادہ کردیں گے۔ 95ء سے 2000ء تک کے ان پانچ سالوں میں ہم اس علاقے کے لوگوں کی سوچ میں مزید تبدیلیاں لائیں گے اور شاید پانچ سال بعد اس علاقے کو دیکھ کر آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ کبھی یہ علاقہ اپنی ناخواندگی کی وجہ سے مشہور تھا۔
تعلیم کے علاوہ یہاں آمدنی کے ذرائع بڑھانے کیلئے ہم نے ان فیکٹریز سے رابطے کیے جو یہاں سے گھروں میں سلے ہوئے فٹ بال منگواتی تھیں۔ یہاں عورتوں کیلئے یہ ممکن نہیں ہوتا تھا کہ وہ ان فیکٹریز میں جا کر وہاں فٹ بال سیئیں اور اس طرح کچھ بہتر معاوضہ حاصل کریں، لیکن ہم نے ان فیکٹریز کو مجبور کیا کہ وہ ان علاقوں میں اپنے سنیٹرز قائم کریں جہاں یہ عورتیں کام کریں اور اس طرح نہ صرف اچھا معاوضہ حاصل کرسکتی ہیں بلکہ انہیں اپنے گھر سے بہت دور بھی نہیں جانا پڑے گا۔ شروع میں اس کام میں بھی ہمیں بہت پرابلم ہوا کیونکہ زیاہ تر علاقے بارڈر ایریاز ہیں اور فیکٹریز یہاں اپنے سنیٹرز قائم کرنے کو تیار نہیں تھیں کیونکہ بارڈرز پر ٹینشن کے زمانے میں نہ صرف یہ علاقے خالی کروا لیے جاتے بلکہ ان سنیٹرز کو بھی بند کرنا پڑتا لیکن پھر آہستہ آہستہ کچھ بڑی فیکٹریز نے ہم لوگوں کے دباؤ کے تحت یہاں سنیٹرز قائم کیے۔”