Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”این جی اوزجب یہاں آئیں تو انہوں نے دیہی اصلاحات اور سوشل ڈویلپمنٹ کا نام لے کر حقائق اور اعداد و شمار اکٹھے کرنے شروع کردیئے۔ کس علاقے میں کس عمر تک کے بچے کام کر رہے ہیں؟ فٹ بال انڈسٹری سے منسلک عورتوں کی تعداد کیا ہے۔ بانڈڈ لیبر کی اجرتوں کا ریٹ کتنا ہے؟ ان لوگوں کو کس طرح کی سہولیات میسر ہیں؟ یہ سارا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے ”اور اب دیکھئے گا علیزہ بی بی آئندہ چند سالوں میں چائلڈ لیبر اور بانڈڈ لیبر کے حوالے سے ان ہی علاقوں کے متعلق انٹرنیشنل میڈیا خاصا شور مچائے گا۔ کچھ پابندیاں بھی لگائی جائیں گی۔” اس نے اپنے ذہن سے عمر کی آواز جھٹکتے ہوئے دوبارہ اس شخص کی آواز پر توجہ دینی شروع کی۔
”ظاہر ہے یہ لوگ کسی آدمی کو تو گھر کے اندر آنے نہیں دیتے اس لیے ہمیں لڑکیوں کی ضرورت تھی جو یہ کام کرسکیں، اسی لیے آپ لوگ دیکھیں گے کہ اس علاقے میں کام کرنے والی ساری این جی اوز کے ساتھ لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد وابستہ ہے۔”
”ہم دو دو لوگوں کا ایک گروپ بناتے تھے جو ایک لڑکی اور لڑکے پر مشتمل ہوتا تھا، یہ لوگ اپنے مخصوص علاقے میں جاتے اور خود کو بہن بھائی ظاہر کرتے اس علاقے کے امام مسجد سے رابطہ کرتے پھر اس کے ذریعے سے باقی لوگوں سے واقفیت حاصل کرتے۔ لڑکیوں کا گھر کے اندر آنا جانا شروع ہوتا، وہ ان کی ضرورت کی چھوٹی موٹی چیزیں ساتھ لے جاتے دوائیاں، صابن، خشک دودھ، بسکٹ اور اسی قسم کی چھوٹی موٹی دوسری چیزیں آہستہ آہستہ وہ لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے لگے اور پھر کوائف اکٹھے کرنا کافی آسان ہوگیا۔ معلومات حاصل کرنے کے بعد دوسرا مرحلہ تھا کہ ان لوگوں تک اپنی بات پہنچائی جائے اور انہیں ان باتوں کو ماننے کیلئے قابل کیا جائے۔ یہ کام زیادہ مشکل تھا مگر بہرحال کسی نہ کسی طرح ہم نے یہ کام بھی شروع کردیا۔



ہمارے چار بنیادی مقاصد تھے، چائلڈ اور بانڈڈ لیبر کا خاتمہ، بچوں کیلئے تعلیم کی فراہمی، بنیادی سہولیات کی فراہمی اور ان علاقوں میں روزگار کے بہتر مواقع اور بہتر اجرت کی فراہمی اوراس کے علاوہ بھی کچھ اور چیزیں تھیں جو ہم کرنا چاہتے تھے مگر وہ اتنی اہمیت کے حامل نہیں تھے۔

ہم اس علاقے اور وہاں کے رہنے والوں کی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں لے کر آئے ہیں یہ آپ تب ہی جان پائیں گے جب آپ خود وہاں جائیں گے لوگوں سے باتیں کریں گے اور ان تبدیلیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ہمیں یہ دعویٰ نہیں ہے کہ ہم نے سب کچھ تبدیل کردیا ہے ظاہر ہے ہم ابھی بھی کام کر رہے ہیں اور تبدیلی ایک مسلسل عمل کا نام ہے لیکن ہم نے ایک اہم کام کا آغاز ضرور کیا ہے اور شاید جتنی بہتری این جی اوز وہاں لائی ہیں اتنی کوئی حکومت بھی نہیں لاسکتی تھی۔”
شہلا نے اسے کہنی مار کر متوجہ کیا ”کیا تمہیں اب بھی ان پر شک ہے؟”
”کیا تمہیں شک ہے؟” اس نے جواباً پوچھا۔
”پتا نہیں میں تو بہت ہی کنفیوزڈ ہوں۔ ایک طرف عمر کی باتیں۔ دوسری طرف یہ لوگ… ابھی تو میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔” شہلا بھی اسی کی طرح الجھی ہوئی تھی۔



”ابھی تو یہ سب کچھ زبانی بتارہے ہیں جب ہم گاؤں میں جاکر رہیں گے تب ہی ہمیں اندازہ ہوسکے گا کہ کیا یہ واقعی سچ بول رہے ہیں یا پھر یہ واقعی کوئی جھوٹ ہے۔” اس نے شہلا سے کہا۔
وہ آدمی ایک بار پھر بولنا شروع کرچکا تھا اب وہ اپنی این جی اوز کے بارے میں معلومات فراہم کر رہا تھا اور اس کی کارکردگی کے حوالے سے کچھ حقائق پیش کر رہا تھا۔ سب لوگ بے حد سنجیدگی سے اس کی باتیں سننے میں مصروف تھے۔
پہلی بار علیزہ کو اندازہ ہوا کہ سچ اور جھوٹ کو پہچاننا کتنا مشکل کام ہے۔ Sense of Judgement ہر بندے کے پاس ہوتی ہے اور اگر ہو بھی تو ضروری نہیں کہ اس کو استعمال کرنے کی صلاحیت بھی سب ہی کے پاس ہو۔ کم از کم اس کیلئے تو یہ سب بہت مشکل تھا۔
”اگر عمر کے پاس ٹھوس اعتراضات تھے تو اس چیز کی ان کے پاس بھی کمی نہیں ہے اگر وہ لاجک کی بات کرتا ہے تو یہ شخص بھی ہر چیز کو منطقی بنا کر ہی پیش کر رہا ہے اگر عمر کی بات میں سچائی نظر آئی تھی تو جھوٹا تو یہ آدمی بھی نہیں لگ رہا تھا پھر میں یہ کیسے طے کروں کہ کون صحیح اور کون غلط ہے۔”
وہ جتنا سوچ رہی تھی اتنا ہی الجھتی جارہی تھی۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!