Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

باب 22

اس عورت نے یک دم آگے بڑھ کر عمر کا ماتھا چوم لیا۔ علیزہ نے عمر کو جیسے کرنٹ کھا کر دو قدم پیچھے ہٹتا دیکھا۔ اس عورت نے ایک بار پھر آگے بڑھ کر عمر کے کندھوں پر ہاتھ رکھنا چاہے مگر اس بار عمر نے اپنے ہاتھوں سے اس کے بازوؤں کو پیچھے ہٹا دیا۔
”پلیز یہ کافی ہے۔”
علیزہ نے اسے کرخت لہجے میں کہتے سنا، اس کا اشارا واضح طور پر اس عورت کے اس والہانہ اظہار محبت کی طرف تھا۔ علیزہ ہکا بکا عمر اور اس عورت کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ اس عورت کا چہرہ یک دم جیسے بجھ گیا تھا۔ عمر اب نانو کو دیکھ رہا تھا۔
”تم کیسے ہو عمر؟” اس بار اس عورت نے وہیں کھڑے کھڑے پوچھا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔” عمر نے نظریں ملائے بغیر جواب دیا۔
”زارا! آؤ یہاں بیٹھ جاؤ عمر! تم بھی بیٹھ جاؤ۔ اس طرح کھڑے کھڑے باتیں کرنا مناسب نہیں۔”
نانو نے پہلی بار مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے اس عورت کو پلٹ کر اپنی جگہ جاتے دیکھا۔ علیزہ نے عمر کو کسی کشمکش میں مبتلا پایا یوں جیسے وہ طے نہ کر رہا ہو کہ اسے اس عورت کے پاس جاکر بیٹھنا چاہیے یا نہیں بالآخر وہ جیسے کسی نتیجہ پر پہنچ گیا۔
علیزہ نے اسے بے آواز قدموں سے نانو کے صوفہ پر بیٹھتے دیکھا۔ اس عورت کی نظریں مسلسل عمر پر ٹکی ہوئی تھیں جبکہ عمر مسلسل اپنی نظریں نیچے جھکائے ہوئے تھا۔ علیزہ کی حیرانی میں شدت آتی جارہی تھی آخر یہ عورت کون ہے جو اس طرح یہاں آتی ہے؟ جسے نانو چائے پلا رہی ہیں اور جو عمر کودیکھ کر یوں بے اختیار ہوگئی تھی۔ اس کا ذہن عجیب سی سوچ میں الجھا ہوا تھا۔



لاؤنج میں مکمل خاموشی تھی، شاید کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بات کیسے شروع کی جائے۔ علیزہ اپنی جگہ کھڑی صوفوں پر موجود تینوں کرداروں کو دیکھ رہی تھی سب کچھ جیسے یکدم ہی بہت پراسرار ہوگیا تھا۔ وہ منتظر تھی کہ ان میں سے کوئی گفتگو کا آغاز کرے اور وہ اس اسرار کو حل کرسکے۔ اس عورت نے اب اچانک علیزہ کو دیکھا۔ اس کی نظریں کچھ دیر کیلئے اس پر ٹھہر گئیں علیزہ اس کی نظروں سے نروس ہوگئی۔ نانو نے اس عورت کی نظروں کا تعاقب کیا۔
”یہ علیزہ ہے۔” انہوں نے اس عورت سے جیسے اس کا تعارف کروایا تھا۔
”علیزہ؟” اس عورت نے استفہامیہ نظروں سے نانو کو دیکھا۔
”ہاں علیزہ، ثمینہ کی بیٹی۔”
”اوہ… ہاں علیزہ… کیا ثمینہ یہیں ہوتی ہے؟”
”نہیں وہ آسٹریلیا میں ہوتی ہے۔ علیزہ میرے پاس رہتی ہے۔” نانو نے مختصراً اس کا تعارف کروایا۔
”علیزہ! یہ… یہ عمر کی ممی ہیں۔”
علیزہ کا منہ نانو کے اس تعارف پر کھل گیا۔ ایک نظر اس نے اس عورت کو دیکھا جس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری تھی۔ دوسری نظر اس نے عمر پر ڈالی، وہ اب بھی سرجھکائے بیٹھا تھا۔
”ہیلو۔” اس نے بالآخر انہیں مخاطب کیا۔
”ہیلو، کیسی ہو تم؟”
”میں ٹھیک ہوں۔” اس نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”علیزہ! آؤ مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔” نانو نے یک دم اٹھتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
کیا وہ اسے اب ڈانٹنا چاہتی تھیں۔ نانو ان دونوں کو وہیں چھوڑ کر لاؤنج سے باہر نکل گئیں۔ علیزہ نے بھی بے جان قدموں سے ان کی پیروی کی۔
”میں تمہیں اس لیے باہر لے آئی ہوں، تاکہ وہ دونوں آپس میں گفتگو کرسکیں۔” باہر نکلتے ہوئے نانو نے اس سے کہا۔
”مگر عمر کی ممی کہاں سے آگئی ہیں؟” اس نے خدا کا شکرادا کرتے ہوئے نانو سے پوچھا کہ انہیں یاد نہیں رہا کہ وہ کہاں گئی تھی۔
”زارا پاکستان آئی ہوئی ہے آج کل اپنی فیملی کے ساتھ، اس کا دل چاہا تو یہاں ملنے آگئی۔” نانو نے اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
”اپنی فیملی کے ساتھ۔” وہ ٹھٹک گئی۔



”ہاں بھئی، اپنی فیملی کے ساتھ۔ دو بیٹے ہیں اس کے، شادی کرچکی ہے۔ انگلینڈ سے آئی ہے۔”
”مگر کیوں؟”
”کیوں کا کیا مطلب ہے؟ ظاہر ہے اپنے بیٹے سے ملنے آئی ہے۔”
وہ ان کے پیچھے چل رہی تھی۔ ”کیا پہلے بھی یہ عمر سے ملنے کیلئے آتی رہی ہیں؟”
”مجھے نہیں پتا۔ عمر تو ابھی چند ماہ سے ہی میرے پاس ہے۔ اب یہ اس سے ملتی رہی ہے یا نہیں اس کے بارے میں تو کچھ کہنا خاصا مشکل ہے۔ مگر وہاں البتہ جہانگیر پسند نہیں کرتا کہ یہ عمر سے ملے۔”
علیزہ کچھ حیران ہوئی۔ ” کیوں انکل جہانگیر کیوں پسند نہیں کرتے؟”
”پتا نہیں، مگر بس وہ شروع سے ہی کوشش کرتا رہا ہے کہ زارا عمر سے نہ مل پائے، خاص طور پر علیحدگی کے فوراً بعد تو جہانگیر نے جان بوجھ کر عمر کو اس بورڈنگ میں کروایا تھا جہاں زارا کیلئے جانا مشکل ہو… اب پتا نہیں ہوسکتا ہے وہ کچھ نرم پڑ گیا ہو اور عمر کا رابطہ ماں سے ہو مگر پہلے تو ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔”
”مگر انکل جہانگیر کیوں نا پسند کرتے ہیں عمر کا اپنی ممی سے ملنا؟”
”بس دونوں میں علیحدگی خاصے خراب حالات میں ہوئی تھی۔ بہت زیادہ جھگڑے ہوئے دونوں میں۔ بات کورٹ تک گئی، وہاں بھی دونوں نے ایک دوسرے پر بہت سے الزامات لگائے۔ شاید جہانگیر اسی وجہ سے عمر کے اس سے ملنے کو ناپسند کرتا رہا۔”
”مگر اب اس میں عمر کا کوئی قصور نہیں۔ انکل جہانگیر یہ کیوں نہیں سوچتے۔” اس نے عمر کی طرف داری کرتے ہوئے کہا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!