”جہانگیر کا دماغ ہمیشہ ہی بہت گرم رہا… وہ اپنے معاملات میں کسی دوسرے کی سنتا ہے نہ ہی کسی کی مداخلت پسند کرتا ہے۔”
”پھر آپ نے زارا آنٹی کو اندر کیوں بٹھایا۔ عمر سے ملنے کیوں دیا اگر انکل جہانگیر کو پتا چلا تو وہ آپ سے بھی ناراض ہوسکتے ہیں۔”
”ہاں ناراض ہوسکتا ہے مگر میں اتنی بے مروت تو نہیں ہوسکتی کہ اسے اندر ہی نہ آنے دیتی یا اسے اپنے بیٹے سے نہ ملنے دیتی۔ اب نہ سہی مگر کبھی تو وہ اسی خاندان کا ایک حصہ رہی ہے۔ اگر جہانگیر اپنی عادات کچھ بدل لیتا تو شاید ان دونوں میں طلاق نہ ہوتی۔ زارا اتنی خراب لڑکی نہیں تھی۔ اچھی تھی۔ جہانگیر سے محبت کرتی تھی اور بھی خاصی خوبیاں تھیں ان دونوں کی ایک دوسرے کے ساتھ اچھی گزرسکتی تھی مگر جہانگیر… اب اگر وہ بیٹے سے ملنے آتی ہے تو مجھے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ آخر عمر بھی اب میچور ہے۔ میں نے دونوں کو ملوا دیا اب، اور پھر عمر کو زارا سے ملنا ناپسند ہوتا تو وہ ابھی انکار کردیتا مگر اس نے نہیں کیا… میں نے یہی سوچ کر زارا کو اس سے ملوایا تھا۔”
نانو اب اپنے کمرے میں آچکی تھیں۔ علیزہ ان کے ساتھ چلتے ہوئے ان کی باتیں سن رہی تھی۔
”مگر عمر نے کبھی بھی اپنی ممی کا ذکر نہیں کیا، کیا کبھی آپ کے ساتھ وہ زارا آنٹی کی بات کرتا ہے؟”
”نہیں، مجھ سے اس نے کبھی بات نہیں کی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ زارا کو ناپسند کرتا ہے۔ بچپن میں بہت اٹیچ تھا یہ زارا کے ساتھ۔ جب جہانگیر اور زارا میں علیحدگی ہوگئی تو پانچ چھ ماہ خاصا بیمار رہا۔ ڈاکٹرز نے جہانگیر سے کہا کہ وہ اسے ماں کے پاس بھجوا دے مگر جہانگیر اس پر تیار نہیں ہوا وہ کہتا تھا کہ بیمار ہو یا ٹھیک رہے اسے رہنا جہانگیر کے پاس ہی ہے۔” وہ یک دم جیسے کچھ یاد کر کے خاموش رہ گئی تھیں۔
”پھر کیا ہوا نانو؟” علیزہ نے بڑی بے تابی سے پوچھا۔
”کیا ہونا تھا۔ زارا نے کافی کوشش کی، شروع میں اسے اپنی کسٹڈی میں لینے کی مگر بعد میں اس نے شادی کرلی عمر کی کسٹڈی کا کیس تب کورٹ میں تھا۔ زارا خود ہی پیچھے ہٹ گئی، جہانگیر نے عمر کو جس بورڈنگ میں رکھا تھا وہاں سائیکالوجسٹ عمر کا علاج کرتا رہا آہستہ آہستہ یہ ٹھیک ہوگیا۔ بعد میں کبھی کوئی پرابلم نہیں ہوا۔”
نانو آہستہ آواز میں بتاتی جارہی تھیں، وہ خاموشی کے ساتھ ان کی باتیں سنتی رہی۔ بات کرتے کرتے اچانک نانو کو یاد آیا۔
”تم کہاں تھیں؟ میں پورے گھر میں ڈھونڈتی رہی پھر چوکیدار نے بتایا کہ تم عمر کے ساتھ گئی ہو۔”
”وہ… عمر نے کہا تھا کہ مطلب مارکیٹ تک جانا چاہ رہا تھا تو میں۔” وہ گڑبڑا گئی اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ فوری طور پر نانو سے کیا کہے۔
نانو کچھ دیر اسے گھورتی رہیں۔ ”اس کے ساتھ مارکیٹ گئی تھیں؟”
”ہاں۔” اس نے سر ہلا دیا۔
”کم از کم بتا تو سکتی تھیں مجھے۔”
”میں نے کہا تھا مگر عمر کہہ رہا تھا کہ واپس آکر بتا دیں گے۔” اس نے منمناتے ہوئے کہا۔
”گئے کیسے تھے تم لوگ؟ گاڑی تو یہیں تھی؟”
”پیدل گئے تھے واک کرتے ہوئے۔”
”اتنی دور پیدل جانے کی کیا ضرورت تھی؟ گاڑی لے جاسکتے تھے۔ میں پریشان ہوتی رہی۔” نانو نے اب کچھ سخت لہجے میں اسے جھڑکا۔
”سوری نانو۔”
”ٹھیک ہے مگر آئندہ محتاط رہنا، اس طرح بتائے بغیر غائب ہونا کوئی مناسب بات نہیں۔ تمہارے نانا ابھی تک نہیں آئے۔ وہ آجاتے تو وہ مجھ سے بھی زیادہ پریشان ہوتے۔” نانو کا لہجہ کچھ نرم پڑ گیا۔
”اب میں جاؤں؟” علیزہ نے فوراً وہاں سے کھسکنے کی کوشش کی۔
”ہاں ٹھیک ہے جاؤ۔”
علیزہ فوراً اٹھ کر نانو کے کمرے سے باہر آگئی۔ باہر آنے کے بعد اس نے اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھائے مگر پھر جیسے اس کے ذہن میں کوئی خیال ابھرا تھا۔ نانو کے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ وہ یقیناً اب اسی وقت وہاں سے نکلتیں جب عمر کی ممی وہاں سے چلی جاتیں۔
”مجھے دیکھنا چاہیے کہ عمر اور اس کی ممی۔” وہ یک دم متجسس ہوگئی۔