بیڈ پر چت لیٹے ہوئے وہ تاریکی میں کمرے کی چھت کو گھور رہا تھا۔ سوات میں ماں کو اپنی فیملی کے ساتھ دیکھنے پر جس طرح وہاں سے بھاگا تھا۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، اس کی ممی اس کے پیچھے ہی لاہور آگئی تھیں۔
پچھلے چودہ سالوں میں ایسا بہت بار ہوا تھا کہ ماں کو کہیں دیکھنے پر وہ سرپٹ وہاں سے بھاگ نکلا ہو ،اور زارا اگر اسے دیکھ لیتیں تو وہ اسی طرح اس کے پیچھے آتی تھیں اور ماں کا اپنے پیچھے آنا اس طرح آنا اسے اچھا لگتا تھا۔ شاید لاشعوری طور پر وہ آج بھی منتظر تھا کہ وہ اس کے پیچھے آئے اور پھر وہ اسی طرح ماں کا ہاتھ جھٹکے جس طرح پچھلے چودہ سالوں میں جھٹکتاآیا تھا اور ماں کے ساتھ اس طرح کرنے کے بعد ہر بار وہ ایسے ہی کمرہ بند کر کے بیٹھ جایا کرتا تھا۔
”کون کہتا ہے کہ میں عمر جہانگیر میچیور ہوچکا ہوں۔ کم از کم آج جو میں نے ممی کے ساتھ کیا اس کو دیکھنے والا کوئی بھی شخص مجھے میچیور سمجھ سکتا ہے نہ ہوش مند۔” آنکھیں بند کرتے ہوئے اس نے جیسے بے چارگی سے سوچا۔