باب 7
علیزہ نے اسکیچ مکمل کر لیا تھا۔ عمر جہانگیر کے اسکیچ کو اسکیچ بک سے نکالنے کے بعد وہ ایک بار پھر اٹھ کر اس کے کمرے میں آگئی تھی۔ لائٹ آن کرنے کے بعد وہ سٹڈی ٹیبل کی طرف گئی اور وہاں اسکیچ رکھنے کے بعد اس نے پیپر ویٹ اس کے اوپر رکھ دیا۔ وہ جانتی تھی عمر جہانگیر کے لئے یہ ایک خوشگوار سرپرائز ہو گا۔
یہ پہلا اسکیچ نہیں تھا جو اس نے عمر جہانگیر کے لئے تیار کیا تھا۔ پچھلے کئی سالوں میں ایسے کئی اسکیچز اس نے تیار کئے تھے۔ اس کا چہرہ ان چند چہروں میں سے تھا جو کسی بھی لمحہ ان کے ذہن سے غائب نہیں ہوتے تھے۔ بعض دفعہ جب وہ عمر کا کوئی بہت اچھا اسکیچ بنا لیتی تو اسے پوسٹ کر دیتی۔ جواب میں بعض دفعہ وہ شکریے کے طور پر کارڈ بھیج دیتا یا پھر فون کر لیتا۔ علیزہ کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا تھا۔ اگر وہ یہ دونوں کام نہ بھی کرتا تو بھی شاید اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔وہ کچھ دیر وہیں کھڑی اسکیچ کو دیکھتی رہی پھر اس نے جھک کر اسکیچ کے نیچے ایک کونے میں کچھ لکھ دیا تھا۔ سیدھی ہو کر وہ مسکرائی تھی اور اس نے پین کو دوبارہ ہولڈر میں رکھ دیا تھا۔