Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

اس نے اصرار کیاتھا۔
”ٹھیک ہے تم شہلا کو فون پر کالج میں Applicationدینے کے لئے کہہ دینا۔”
نانو اسے ہدایت دیتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔
اس رات وہ بے تحاشا خوش تھی اور یہ خوشی کسی سے بھی چھپی نہیں رہ سکی تھی حتیٰ کہ عمر سے بھی۔ رات کے کھانے پر نانو نے نانا کو اس کے کراچی جانے کے بارے میں بتا دیا تھا۔ عمر نے اس وقت غور سے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔ وہ آج پہلی بار کھانے کی ٹیبل پر مسکرا رہی تھی۔ نانا کچھ دیر اس سے اس کے پاپا کا حال احوال پوچھتے رہے۔ وہ بڑے جوش و خروش سے پروگرا م کے بارے میں بتاتی رہی۔رات کو وہ اپنا سامان پیک کر رہی تھی جب نانو اس کے کمرے میں آئی تھیں۔
”کل صبح نو بجے کی فلائٹ ہے، تم سات بجے تک تیا ر ہو جانا۔ میں نے عمر کو کہہ دیاہے وہ تمہیں ائیر پورٹ ڈراپ کر دے گا۔”
انہوں نے اسے اطلاع دیتے ہوئے کہاتھا۔
”عمر ڈراپ کرے گا، مگر عمر کیوں نانو؟ ڈرائیور کو کہیں نا!”
وہ کچھ سٹپٹائی تھی ۔
”ڈرائیور آج نہیں آیا ، مجھے نہیں پتہ کل بھی آتا ہے یا نہیں، ویسے بھی ڈرائیور ساڑھے آٹھ بجے آتا ہے اور تمہیں آٹھ بجے تک ائیر پورٹ پر پہنچ جانا چاہئے آج ڈرائیور آ جاتا تو میں اسے کل جلدی آنے کا کہہ دیتی۔”
”آپ نانا سے کہہ دیں نا مجھے ڈراپ کرنے کے لئے!”
اس نے پھر اصرار کیاتھا۔



”تمہارے نانا کو میں اتنی صبح کہاں اٹھاؤں ، تمہیں عمر کے ساتھ جانے میں کیا پرابلم ہے؟”
”نہیں، بس ویسے ہی!”
”کچھ کہنے کی ضرورت نہیں بس وہی تمہیں صبح چھوڑنے جائے گا۔”
نانو نے حتمی طور پر کہاتھا۔
علیزہ نے ہونٹ بھینچ لئے تھے۔
” وہ تو صبح اٹھتے ہی نہیں ، تو پھر کل ۔۔۔۔۔”
نانو نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”یہ تمہارا نہیں میرا پرابلم ہے، کل وہ اٹھ جائے گا اور نہیں بھی اٹھاتو میں اسے اٹھا دوں گی۔”
نانو کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئیں۔
اگلی صبح وہ بہت ایکسائٹیڈ تھی۔ اپنا بیگ لے کر جب وہ لاؤنج میں آئی تو وہاں عمر نہیں تھا۔
”تم بیٹھ کر ناشتہ کر لو۔”
نانو نے اسے دیکھتے ہی کہاتھا۔
”نہیں نانو ! مجھے کچھ بھی نہیں کھانا، بس آپ ملازم سے کہیں ، میرا بیگ گاڑی میں رکھ دے۔”
اس نے بیگ فرش پر رکھتے ہوئے کہاتھا۔
”کچھ کھائے پیئے بغیر گھر سے نکلنا ٹھیک نہیں ہے، ناشتہ کر لو۔”
”نانو ! مجھے بھوک نہیں ہے۔”
”بھوک ہے یا نہیں ، تمہیں کچھ نہ کچھ ضرور کھانا ہے۔”
”میں پلین میں کھا لوں گی۔”
”پلین میں پتہ نہیں کیا ملے اور کیا نہیں، بس تم یہیں کھاؤ۔”
نانو کی ضد برقرار تھی۔
”پلیز نانو ! میرا دل نہیں چاہ رہا بلیو می۔ میرا دل واقعی نہیں چاہ رہا۔ ”
وہ منمنائی تھی۔
”چلو یہ جوس ہی پی لو۔”
علیزہ نے کچھ سوچ کر جوس کا گلاس اٹھا لیاتھا۔



نانو نے ملازم کو آواز دے کر بیگ گاڑی میں رکھنے کے لئے کہا تھا۔
”آپ دیکھ لیں کہ عمر ابھی تک نہیں آیا۔ میں نے آپ سے کہا تھا نا۔”
اس نے جوس کا گلاس خالی کرتے ہی کہا۔
”وہ ابھی تک سو رہا ہو گا۔ آپ نے خواہ مخواہ ہی اسے مجھے چھوڑنے کے لئے کہا۔”
علیزہ نے گھڑی دیکھی۔
”میں پتہ کرواتی ہوں ، سو بھی رہا ہو گا تو ملازم اٹھا دے گا۔ یہ کون سا اتنا بڑا پرابلم ہے۔”
نانو نے اطمینان سے کہاتھا۔ ملازم کو آواز دے کر انہوں نے اسے عمر کے کمرے میں بھیجاتھا۔ ملازم چند منٹوں میں ہی واپس آگیا تھا۔ عمر اس کے پیچھے تھا۔ اس کے حلیے سے لگ رہاتھا کہ وہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے ، وہ نائٹ سوٹ اور سلیپرز میں ہی ملبوس تھا۔ نانو نے مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کیاتھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!