”تمہیں یاد نہیں رہا کہ تمہیں آج علیزہ کو ائیر پورٹ چھوڑنے جانا ہے؟”
نانو نے اس سے پوچھا۔
”مجھے جگانے کے لئے ، ملازم کو بھیجنا پڑا۔”
”نہیں ملازم کے جانے سے پہلے ہی اٹھا ہوا تھا۔ مجھے یاد تھا۔ میں الارم لگا کر سویا تھا۔”
”علیزہ نے سات بجے تیار ہو کر نیچے آنا تھا۔ میں نے سوچا ، پندرہ منٹ میں وہ بریک فاسٹ کرے گی۔ میں سات بج کر دس منٹ کا الارم لگا کر سویا اور پانچ منٹ میں یہاں ہوں۔”
اس نے انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے بتایا۔ اس کی ہر چیز ہمیشہ کی طرح تھی۔ نانو اس کی بات کے اختتام پر کچھ فخریہ انداز میں علیزہ کی طرف دیکھ کر مسکرائی تھیں۔ وہ کچھ کہے بغیر نظریں چرا گئی ۔
”چلیں علیزہ !”
عمر نے اس بار علیزہ سے پوچھا۔ وہ خاموشی سے کھڑی ہو گئی۔
”آؤ ،میں تمہیں باہر تک چھوڑ آتی ہوں۔”
نانو نے علیزہ کا ہاتھ پکڑ لیاتھا۔
عمر ان کے آگے چلتا ہوا باہر نکل آگیا۔ وہ گاڑی سٹارٹ کر رہا تھا جب نانو نے اسے گلے لگا کر خدا حافظ کہاتھا۔
”وہاں جاتے ہی مجھے رنگ کر لینا۔ مجھے تسلی ہو جائے گی۔”
انہوں نے علیزہ سے کہاتھا۔
”اور کوشش کرنا کہ جلدی آجاؤ۔”
علیزہ نے مسکرا کر سر ہلا دیاتھا۔
عمر نے فرنٹ ڈور کھول دیا تھا۔ علیزہ نے ایک بار پھر نانو کی طرف ہاتھ ہلایا ، اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔ نانو وہیں پورچ میں کھڑی ہاتھ ہلاتی رہی تھیں۔
”بہت خوش ہو علیزہ !”
گاڑی سڑک پر لاتے ہی عمر نے اس سے پوچھاتھا۔
”ہاں!”
اس نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیاتھا۔
”تمہارے پاپا بھی بہت خوش ہوں گے؟”
”ظاہر ہے ، وہ تو مجھ سے بھی زیادہ خوش ہوں گے!”
اس نے فخریہ انداز میں کہاتھا۔
”وہاں ائیر پورٹ پر کون ریسیو کرے گا تمہیں؟”
عمر نے مرر ٹھیک کرتے ہوئے پوچھا۔
”ظاہر ہے کہ ، پاپا ہی ریسیو کریں گے۔”
اس نے بے اختیار جھوٹ بولاتھا۔
”تمہارے پاپا کافی سال کے بعد آئے ہیں پاکستان؟”
اس نے پوچھا تھا۔
”ہاں! تین سال کے بعد۔”
”تم تین سال کے بعد مل رہی ہو؟”
”چار سال بعد!”
”ہر سال کیوں نہیں ملتیں؟”
”بس ویسے ہی، پاپا تو مجھے مسقط بلاتے رہتے ہیں مگر میرا دل نہیں چاہتا وہاں جانے کو۔ میں ممی کے پاس چلی جاتی ہوں، اس لئے کہ مسقط میں بہت گرمی ہوتی ہے۔ میں سوچتی ہوں شاید مجھے وہاں کا موسم سوٹ نہ کرے۔ مجھے اصل میں آسٹریلیا میں زیادہ مزہ آتا ہے۔”
وہ یکے بعد دیگرے وضاحتیں کرتی جارہی تھی۔ عمر جہانگیر نے گردن موڑ کر چند لمحے اسے دیکھا تھا۔
”ہاں! واقعی آسٹریلیا میں رہنے میں زیادہ مزہ آتا ہے، میں بھی چند سال پہلے وہاں گیا تھا۔”
اس نے جیسے اس کے جھوٹ میں اس کی مدد کی۔
علیزہ نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا تھا، وہ ایک بار پھر ونڈ سکرین کی طرف متوجہ تھا۔ اس کا چہرہ بے تاثر اور پر سکون تھا۔ وہ کچھ مطمئن ہو گئی تھی۔
”ہاں ، آسٹریلیا میں زیادہ مزہ آتا ہے ، اس لئے میں وہیں جاتی ہوں۔”
اس نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی تھی۔ گاڑی میں ایک بار پھر خاموشی چھاگئی۔ رستے میں ایک فلاور شاپ پر اس نے گاڑی روک دی۔ کچھ کہے بغیر وہ گاڑی سے اتر گیاتھا۔ چند منٹ بعد جب اس کی واپسی ہوئی تو اس کے ہاتھ میں سفید للی Liliesکا بکے تھا۔ اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی اسے علیزہ کی گود میں رکھ دیا۔ وہ حیران ہو گئی۔
”یہ تمہارے لئے ہے۔”
اس نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہاتھا۔
”مگر کس لئے؟”
”پھول دینے کے لئے کسی وجہ کی ضرورت تو نہیں ہوتی ہے۔ بغیر کسی وجہ کے بھی تو دئیے جا سکتے ہیں، اور میں تو ویسے بھی تمہیں بہت سے گفٹ دیتا رہتا ہوں۔ تم انہیں بھی گفٹ سمجھو۔”
اس نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا تھا، وہ کچھ دیر اس کا چہرہ ہی دیکھتی رہی۔
”تھینک یو!”
کچھ دیر کے بعد اس نے کہاتھا۔
”ویلکم!”
اس نے اسی پر سکون انداز میں کہا تھا۔
ائیر پورٹ پر گاڑی پارک کرنے کے بعد اس نے علیزہ کا بیگ اٹھا لیاتھا۔ علیزہ نے اس سے بیگ لینا چاہا۔
”اٹس آل رائٹ علیزہ ! میں تمہیں اندر چھوڑ آتا ہوں۔”
اس نے بیگ نہیں دیا تھا۔ علیزہ نے دوبارہ اصرار نہیں کیاتھا۔
”تم واپس کب آؤ گی؟”
اس کے ساتھ چلتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”تقریباً ایک ہفتے کے بعد یا شاید کچھ دن زیادہ لگ جائیں۔”
اس نے اسے بتایاتھا۔
”واپسی پر تمہیں ایک اور خوشخبری ملے گی۔”
اس نے سرسری سے انداز میں کہاتھا۔ علیزہ نے چونک کر اسے دیکھاتھا۔ وہ نارمل انداز میں مسکرایا تھا۔
”کیسی خوشخبری؟”
”یہ تو تمہیں واپسی پر ہی پتہ چلے گی!”
”پھر بھی آپ بتائیں تو سہی؟”
اس نے اصرار کیاتھا۔
”بس یہ تو تمہیں واپس آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔”
وہ ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔ علیزہ نے اس کی طرف دیکھ کر کندھے اچکا دئیے۔
بیگ اسے تھماتے ہوئے اس نے علیزہ کو خدا حافظ کہا تھا۔ وہ اندر جانے کے لئے مڑ گئی تھی۔
”علیزہ !”
اسے اپنے پیچھے اس کی آ واز سنائی دی تھی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔
”I will miss you!”
اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اس نے انگلش میں کہا تھا۔ وہ کچھ حیرانی سے اسے دیکھتی ہوئی واپس مڑ گئی۔