Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

رات کا کھانا اس نے نانو کے ساتھ آٹھ بجے کھالیا۔ پہلی بار کلاک کو بار بار دیکھتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وقت کو پر نہیں لگتے بلکہ بعض دفعہ وقت بالکل رک بھی جاتا ہے۔ اس کی تیز رفتاری ہی صبر آزما نہیں ہوتی ۔بعض دفعہ اس کی سست رفتاری بھی تکلیف دہ ہوتی ہے۔
”نانو، آپ ڈرائیور کو کتنے بجے بھیجیں گی ؟”
کھانے سے فارغ ہو کر علیزہ نے پوچھاتھا۔
”ایک بجے۔”
”آپ عمر کا انتظار کریں گی؟”
”ظاہر ہے ،مجھے تو ویسے بھی رات کو نیند نہیں آتی مگر تم چاہو تو جا کر سو جاؤ۔”
”نہیں نانو ! میں بھی انتظار کروں گی۔”
”تمہیں صبح یونیورسٹی جانا ہے۔”
نانو نے اسے یاد دلایا۔
”ہاں ! مجھے پتہ ہے لیکن کچھ نہیں ہوگا۔”
اس نے ان کی یاد دہانی کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہاتھا۔
کھانے سے فارغ ہو کر وہ نانو کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھ گئی۔ ٹی وی پر پروگرام دیکھتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ عمر کے بارے میں بھی باتیں کر تی جا رہی تھیں۔
ایک بجے انہوں نے باہر گاڑی کے اسٹارٹ ہو کر جانے کی آ واز سنی تھی۔ گھڑی کی سوئیاں بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھیں۔
ڈیڑھ……دو……ڈھائی……تین……
سوا تین بجے انہوں نے گیٹ پر ہارن کی آواز سنی تھی۔



”عمر آگیا ہے۔”

بے اختیار علیزہ کے منہ سے نکلا تھا۔ وہ نانو کے ساتھ لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر آگئی تھی۔ گاڑی پورچ میں داخل ہو رہی تھی۔
علیزہ کو ایک جھٹکا لگاتھا۔ گاڑی میں کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے حیرا نی سے دیکھا۔
”نانو! گاڑی میں عمرنہیں ہے۔”
”پتہ نہیں کیا بات ہے؟”
نانو بڑ بڑائی تھیں۔ ڈرائیور گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر آگیاتھا۔
”کیا ہوا اعظم؟ عمر کہاں ہے؟ نانو نے اس سے پوچھا۔
”وہ جی فلائیٹ کینسل ہو گئی موسم کی وجہ سے۔”
”کیا ، فلائیٹ کیسے کینسل ہو گئی؟ مجھے تو عمر نے کوئی اطلاع نہیں دی ، اگر ایسا کچھ ہو تا تو وہ مجھے بتا تو دیتا ۔ تمہیں کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔”
نانو نے فکر مندی سے کہا تھا۔
”نہیں جی، میں نے تو انکوائری کاؤنٹر سے پتہ کروایا تھا۔ آپ بے شک خود ہی فون کر کے پتہ کر لیں، میں نے تو کچھ لوگوں سے بھی پوچھا تھا، انہوں نے بھی یہی کہا تھا۔”
نانو ابھی بھی بے یقینی تھی۔
” سمجھ میں نہیں آرہا، کہ اس نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔”
”ہو سکتا ہے عمر بھول گیا ہو!”
علیزہ نے کچھ مایوسی سے کہاتھا۔
”نہیں ! عمر اتنا لا پرواہ تو نہیں ہو سکتا۔”
”بیگم صاحبہ! اب میں کیا کروں؟”
ڈرائیور نے پوچھا تھا۔
”ٹھیک ہے تم بھی جا کر سو جاؤ!”
علیزہ نے نانو کے ساتھ اندر جاتے ہوئے کہا۔



”عمر کو اطلاع دینی چاہئے تھی۔”
نانو اب بھی فکر مند تھیں۔
”ہو سکتا ہے ابھی کچھ دیر تک اس کا فون آ جائے ، یا صبح فون کردے۔”
علیزہ نے نانو کو تسلی دی تھی ۔
”ہاں ، ہو سکتا ہے۔”
”اب آپ سو جائیں نانو!”
”ہاں، میں تو سو جاؤں گی۔ تم بھی جاکر سو جاؤ!”
وہ سر ہلا کر وہاں سے ہٹ گئی۔ وہ بے دلی کے ساتھ اپنے کمرے میں آئی تھی اس کی آنکھوں سے نیند مکمل طور پر غائب ہو چکی تھی۔ وہ اب جھنجھلا رہی تھی۔
”کیا فائدہ ہوا اس طر ح احمقوں کی طرح انتظار کرنے کا۔ نانو ٹھیک کہتی ہیں، بعض دفعہ کہ میں واقعی حد کر دیتی ہوں حماقت کی۔”
اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آگئی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!