امر بیل ۔قسط ۴۔ عمیرہ احمد
باب 10
ائیر پورٹ پر ڈرائیور اس کے نام کا کارڈ لئے موجود تھا۔ وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑی۔ ائیر پورٹ سے گھر تک کا راستہ بھی خاموشی سے طے ہوا۔ ڈرائیور گاڑی ڈرائیو کرتا رہاتھا اور وہ سڑک پر نظر آنے والی ٹریفک دیکھتی رہی تھی۔ جوں جوں گھر قریب آ تا جا رہا تھا اس کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جا رہی تھی۔ وہ مسلسل اپنے باپ کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
”وہ یقیناً مجھے دیکھ کر حیران ہوں گے ، کیونکہ اب میں بہت بڑی ہو گئی ہوں۔ ہو سکتا ہے اب میرا قد بھی ان کے برابر آگیا ہو۔”
اس نے مسکراتے ہوئے سوچاتھا۔
”پاپا یقیناً مجھے بہت مس کر رہے ہوں گے۔ اسی لئے تو انہوں نے مجھے یہاں آتے ہی بلا لیاہے۔”
اسے کچھ فخر کا احساس ہوا تھا۔
گاڑی اب اس کے ددھیالی گھر پہنچ گئی تھی۔ ڈرائیور کے ہارن بجانے پر گیٹ کھل رہا تھا۔
سامنے پورچ خالی نظر آرہا تھا۔
”ابھی ہارن سننے پر پاپا باہر آ جائیں گے۔”
اس نے کچھ مسرور ہوکرسوچا۔
گاڑی اب پورچ میں پہنچ گئی تھی۔
وہ دروازہ کھول کر نیچے اتر آئی۔ پورچ ابھی بھی خالی تھا۔ ڈرائیور اب ڈکی سے اس کا سامان نکال رہا تھا۔ وہ ابھی بھی اندر سے پاپا یا کسی اور کی آمد کی منتظر تھی۔ ڈرائیور نے ڈکی سے سامان نکالنے کے بعد اسے کہا۔
”علیزہ بی بی ! اندر آ جائیں۔”
یہ کہتے ہوئے وہ پیچھے دیکھے بغیر آگے بڑھ گیا۔ اسے یک دم مایوسی ہوئی تھی۔
”پاپا یقیناً لاؤنج میں ہوں گے اور میرے اندر آنے کا انتظار کر رہے ہوں گے۔”
اس نے فوراً خود کو تسلی دی تھی ۔ ڈرائیور کے پیچھے وہ بھی اندر داخل ہو گئی تھی۔ لاؤنج خالی تھا، وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ ڈرائیور نے ایک کونے میں اس کا بیگ رکھ دیاتھا۔
”آپ بیٹھ جائیں، میں اندر بتا دیتا ہوں۔” ڈرائیور اس سے کہتا ہوا اندر چلا گیا تھا۔
علیزہ کو وہ خود سے زیادہ اس گھر کا ایک فرد لگا تھا۔ کسی مہمان کی طرح وہ ایک صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔ اس کی مایوسی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا۔ گھر میں اتنی خاموشی تھی جیسے وہاں ملازموں کے علاوہ کوئی تھا ہی نہیں۔ اس گھر میں ہمیشہ اتنی ہی خاموشی رہتی تھی۔ بچپن سے لے کر اب تک وہ جتنی بار وہاں آئی تھی، ہمیشہ اسی خاموشی نے اس کا استقبال کیا تھا ہاں پہلے فرق یہ تھا کہ پاپا اسے دروازے پر ملا کرتے تھے اور اس خاموشی کو وہ بعد میں محسوس کیا کرتی تھی۔ آج خاموشی کو اس نے پہلے محسوس کیا تھا اور پاپا سے وہ ابھی نہیں ملی تھی۔
پچھلی بار جب وہ یہاں آئی تو دادا کے علاوہ چچی اور ان کے دو بچوں سے بھی اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس گھر کے مکینوں کی تعداد بس اتنی ہی تھی۔
”اب پاپا اور ان کی فیملی۔”
اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیاتھا۔ کمرے میں ڈرائیور کے ساتھ ایک عورت داخل ہوئی۔ علیزہ نے اسے پہچان لیا تھا۔ وہ خانساماں کی بیوی تھی۔ پچھلے کئی سال سے وہ دونوں وہیں کام کر رہے تھے۔ اس عورت نے آتے ہی بڑی گرم جوشی اور انکسار سے علیزہ سے ہاتھ ملایا۔ ا س کا حال احوال پوچھا تھا۔
”سب لوگ تو ابھی سو رہے ہیں، آدھے گھنٹے تک اٹھ ہی جائیں گے۔ صاحب نے آپ کے آنے کے بارے میں ہمیں رات کو بتا دیا تھا، اور کہا تھا کہ جب آپ آئیں تو میں آپ کو کمرے میں پہنچا دوں اور آرام کرنے کے لئے کہوں!”
زرینہ نے اسے آگاہ کیا تھا ۔ علیزہ کو ایک اور جھٹکا لگا۔