اگلے دن صبح جب وہ کچن میں آئی تھی، تو اس وقت دس بج رہے تھے۔ نانو اس وقت خانساماں کو کچھ ہدایات دے رہی تھی۔
”السلام علیکم! نانو !”
اس نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے نانو کو مخاطب کیاتھا۔
”وعلیکم السلام !”
انہوں نے اسے دیکھے بغیر ہی اس کے سلام کا جواب دیا تھا۔
”نانا کہاں ہیں نانو! رات تو میں ان سے مل ہی نہیں سکی۔”
اس نے سے پوچھا۔
”کسی کام سے باہر گئے ہوئے ہیں؟”
”پتا نہیں !”
اسے ان کی آواز ایک بار پھر بہت ترش محسوس ہوئی تھی۔
”نانو مجھے بریک فاسٹ کرنا ہے۔” اس نے کہا تھا۔
”میں مرید سے کہہ دیتی ہوں وہ تیار کردیتا ہے!”
انہوں نے خانساماں کا نام لیتے ہوئے کہاتھا۔ وہ کچن میں پڑی ہوئی ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھ ہی گئی۔
”تم جا کر ڈائننگ روم میں بیٹھو۔”
نانو نے اچانک تیز آواز میں اسے جھڑکتے ہوئے کہا تھا، اور اس کے لئے ان کا یہ رد عمل غیر متوقع تھا۔ چند لمحوں تک وہ نہ سمجھنے کی حالت میں ان کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
” تم نے سنا نہیں کہ میں نے کیا کہا ہے؟”
اس بار ان کی آواز پہلے سے زیادہ کرخت تھی۔ علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور وہ چپ چاپ کچن سے نکل کر ڈائننگ روم میں آگئی تھی۔ نانو کی ڈانٹ اس کے لئے کوئی نئی چیز نہیں تھی مگر آج اسے یہ ڈانٹ بلا جواز لگی تھی۔
خانساماں نے ڈائننگ ٹیبل پر اس کے لئے ناشتہ لگانا شروع کر دیا۔ اس کی بھوک اڑ چکی تھی ، وہ چند منٹ تک بے مقصد خانساماں کو ہی ناشتا لگاتے دیکھتی رہی پھر کھڑی ہو گئی۔
”مرید بابا مجھے ناشتہ نہیں کرنا۔”
”کیوں علیزہ بی بی ! کیا ہوا؟”
خانساماں نے کچھ حیران ہوکر پوچھاتھا۔
”بس مجھے بھوک نہیں ہے۔”
”بی بی آپ ناشتہ کر لیں۔ آجکل بڑی بیگم صاحبہ بہت غصہ میں ہیں۔ آپ اس طرح اٹھ کر چلی جائیں گی تو وہ آپ سے بھی بہت ناراض ہو ں گی۔”
خانساماں نے دبی آواز میں اس سے کہا تھا۔
”نانو کو ہوا کیا ہے؟”
اس نے خانساماں سے پوچھا۔
”یہ توپتا نہیں لیکن جب سے عمر صاحب……!”
اس کی بات ادھوری ہی رہ گئی ، نانو اس وقت ڈائننگ روم میں داخل ہوئی تھیں، خانساماں جلدی سے ڈائننگ سے نکل گیا تھا۔
”عمر نے ضرور میرے بارے میں کوئی نہ کوئی بات کی ہوگی۔”
اسے یک دم طیش آیا تھا۔
”وہ نانا اور نانو کو بھی مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے، اور……اورمجھ سے دوستی کے دعوے کرتا ہے۔”
”ناشتہ کیوں نہیں کر رہیں؟”
نانو نے اندر داخل ہوتے ہی اسے کھڑے دیکھ کر کہا تھا۔ ایک بار پھر ان کا لہجہ بہت کھردرا تھا۔
”نانو آپ مجھ سے ناراض ہیں؟”
اس نے بالآخر ان سے بات کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا۔
”میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے کہ میں ہر ایک سے ناراض ہوتی پھروں۔ تم بیٹھ کر ناشتہ کر لو۔”
ان کے جملہ نے اسے اور ہرٹ کیا تھا۔
”مجھے کچھ نہیں کھانا۔”
”ٹھیک ہے نہیں کھانا تو مت کھاؤ! اب میں تمہاری منتیں تو نہیں کر سکتی۔ مرید……مرید ! ڈائننگ ٹیبل پر سے چیزیں اٹھا دو۔”
انہوں نے خانساماں کو بلند آواز میں بلایا تھا۔ علیزہ دم بخود سی انہیں دیکھتی رہی تھی۔
”نانو نے میرے ساتھ کبھی ایسا نہیں کیا ، تو پھر آج کیا بات ہو گئی۔ میری تین دن کی غیر حاضری میں ایسی کیا بات ہو گئی کہ میرے ساتھ اس طرح پیش آنے لگ گئی ہیں۔”
وہ ساکت کھڑی سوچتی ہی رہ گئی۔
” تم سے مجھے کچھ باتیں کرنی ہیں ، میرے بیڈروم میں آجاؤ۔”
نانو نے مرید کو بلانے کے بعد ایک بار پھر اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔
وہ کسی معمول کی طرح ان کے پیچھے ہی ڈائننگ روم سے نکل گئی تھی۔ ان کے پیچھے ان کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے اس کا ذہن مسلسل یہ اندازہ لگانے کی کوشش میں مصروف تھا کہ ان کی ناراضگی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے اور کیا اب اپنے بیڈ روم میں وہ اسی بارے میں باتیں کریں گی؟