Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”کیسی ہو تم؟”
وہ ایک بار پھر اس کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ علیزہ نے اس کے چہرے پر بہت مدھم سی مسکراہٹ دیکھی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟”
علیزہ نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس سے پوچھاتھا۔
اور وہ ایک بار پھر جواباً مسکرا یاتھا۔
”Perfectly Alright.، (بالکل ٹھیک)گرینی کہاں ہیں؟”
اس نے اس کے سوال کا جواب دیتے ہی پوچھاتھا۔
”وہ کچن میں ہیں!”
اور وہ کچھ کہے بغیر کچن کی طرف چلا گیا۔
”کیا اسے مجھ سے صرف اتنی ہی بات کرنی تھی۔”
علیزہ نے ٹیبل پرسے شاخیں اٹھاتے ہوئے سوچاتھا۔ کچن میں سے اس کی آواز آ رہی تھی۔ وہ شاخیں اور پھول لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔



جب وہ واپس ڈائننگ میں آئی تو وہ ٹیبل پربیٹھا نیوز پیپر دیکھ رہا تھا۔ اس کے وہاں آنے پر بھی وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا تھا۔ علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے وہاں رکے یا پھر کچن میں چلی جائے۔ چند سیکنڈز وہ اسی شش و پنج میں رہی تھی پھر کچن کی طرف بڑھ گئی تھی۔ نانو کچن سے باہر نکل رہی تھیں۔
”میں نے مرید سے کہہ دیا ہے وہ کھانا لگا دے گا۔ تم آجاؤ!”
انہوں نے اسے دیکھتے ہی کہاتھا۔ وہ ایک بار پھر ان کے ساتھ واپس ڈائننگ میں آ گئی تھی۔ اس بار عمر جہانگیر ان کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ اس نے نیوز پیپر کو بند کر کے ایک طرف ٹیبل پر رکھ دیاتھا اور وہ نانو کے ساتھ ٹیبل پر آکر بیٹھ گئی۔
”علیزہ مجھ سے صبح پوچھ رہی تھی کہ تم کیسے لگ رہے تھے، بدل تونہیں گئے ۔ میں نے اس سے کہا کہ تم خود ہی دیکھ لینا۔ اب بتاؤ علیزہ ! پہلے سے بدل گیا ہے یا ویسا ہی ہے؟”
نانو نے عمر سے بات کرتے کرتے اسے مخاطب کیاتھا۔ وہ ان کے اس سوال پر کچھ شرمندہ ہو گئی تھی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ نانو عمر کے سامنے ہی یہ بات کہہ دیں گی۔ عمر اب اس کی طرف متوجہ تھا۔
”کیوں علیزہ !کیا میں کچھ بدلا ہوں ؟” اب وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔



”پتہ نہیں ،میں اندازہ نہیں کر سکتی۔” اس نے کچھ شرمندہ ہوتے ہوئے کہا تھا۔
”تمہارا ماسٹرز کیسا جارہا ہے ؟
اس بار اس نے ایک اور سوال کیاتھا۔
”ٹھیک جا رہا ہے!”
”کون سا سبجیکٹ ہے تمہارے پاس؟”
”سوشیالوجی!”
”مگر پہلے تو تم اکنامکس میں انٹرسٹڈ تھیں، یہ ایک دم سوشیالوجی کیسے؟”
وہ بہت سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
”میں ایک این جی او کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہوں اور سوشیالوجی پڑھنے سے مجھے بہت سی بنیادی باتوں کا پتہ چل جائے گا اور مجھے اپنے کام میں زیادہ پرابلمز نہیں ہوں گے۔”
اس نے دھیمی آواز میں وضاحت کی۔
ڈائننگ ٹیبل پر اب کھانا لگایا جا رہا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!