”تم نے مجھے بتایا نہیں، تمہارے اور جہانگیر کے درمیان اب کس بات پر جھگڑا ہوا ہے؟”
نانو اپنا سوال نہیں بھولی تھیں۔
علیزہ نے اس کے چہرے پر ایک بار پھر تناؤ دیکھا تھا۔
”کوئی جھگڑا نہیں ہے گرینی!”
اس نے انہیں بہلانے کی کوشش کی تھی۔
”تم نے خود فون پر کہا تھا کہ تمہارا جہانگیر کے ساتھ جھگڑا ہوگیا ہے! اور اب تم کہہ رہے ہو کہ کوئی جھگڑا ہی نہیں ہوا ہے۔”
میرے اور پاپا کے درمیان جھگڑے کوئی نئی بات نہیں ہیں گرینی، جو چیز ہمیشہ سے ہوتی چلی آ رہی ہو اس کے بارے میں کیا بتاؤں۔”
وہ بہت سیریس نظر آرہا تھا۔
”میں جانتی ہوں کہ تم دونوں کے درمیان جھگڑے کوئی نئی بات نہیں ہیں مگر پھر بھی میں جاننا چاہتی ہوں کہ اس بار کیا ہواہے؟”
” یہی تو میں بھی پوچھ رہا ہوں کہ آپ جان کر کیا کریں گی؟”
”ظاہر ہے تم دونوں کے درمیان پیچ اپ کروانے کی کوشش کروں گی۔”
”کم آن گرینی ! آپ کیا پیچ اپ کروانے کی کوشش کریں گی اور اب آپ کو اس معاملے میں انوالو ہونے کی ضرورت ہی کیا ہے؟”
اس نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا تھا۔
”کیوں انوالو ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، آخر تم دونوں کے ساتھ پرابلم کیاہے؟”
”ہم دونوں کے ساتھ پرابلم یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ غلط رشتے میں باند ھ دیا گیا ہے۔ مجھے ان کا بیٹا ہونے کی بجائے باپ ہونا چاہئے تھا اور انہیں میرا بیٹا ہونا چاہئے تھا، پھر ہرپرابلم بڑی Amicably(دوستانہ انداز سے) حل کر لی جاتی، بلکہ میرا خیال ہے کہ پھر پرابلم پیدا ہی نہیں ہوتی۔ کیونکہ میں اتنا ڈومی نیٹنگ اور کمانڈنگ قسم کا باپ بننے کی کبھی کوشش نہیں کرتا، جتنا پاپا کرتے ہیں۔”
”باپ سے بار بار جھگڑا کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔”
”بیٹے سے بار بار جھگڑا کرنا کیا بہت اچھی بات ہے؟”
”میں اسی لئے تو تم سے پوچھ رہی ہوں کہ مجھے جھگڑے کی وجہ بتاؤ تاکہ میں جان سکوں غلطی کس کی ہے۔”
”گرینی! اب اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نے اسی لئے فارن سروس چھوڑ دی ہے کہ ان سے کبھی میرا آمنا سامنا نہ ہو۔”
”تم نے فارن سروس جہانگیر کی وجہ سے چھوڑی ہے!”
”ہاں!”
باپ سے جھگڑ کر تم فارن سروس چھوڑ کر آ گئے ، عجیب بے وقوف آدمی ہو تم۔”
نانو بہت حیران نظر آئی تھیں۔
”گرینی ! پلیز ! اس وقت مجھے کھانا کھا لینے دیں۔ اس وقت میں اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتا۔ میں بعد میں واپس آکر آپ کو سب کچھ بتا دوں گا۔”
علیزہ نے عمر کو بڑے خشک لہجہ میں کہتے سناتھا۔ نانو اس کی بات پر بالکل خاموش ہو گئی تھیں۔ وہ اپنی پلیٹ صاف کرنے کے بعد اب سویٹ ڈش اٹھا رہا تھا۔
”اتنی جلدی سویٹ ڈش۔ تم نے تو بریانی اور کبابوں کے علاوہ اور کسی چیز کو چکھا ہی نہیں۔”
”بس گرینی ! باقی چیزوں کو واپس آکر چکھ لوں گا، فی الحال تو میں اتنا ہی کھا سکتاتھا۔”
وہ اب سویٹ ڈش نکال رہا تھا۔نانو کے اصرار کے باوجود بھی اس نے کوئی دوسری چیز نہیں لی تھی۔
”ڈرائیور کو کہہ دیں کہ مجھے ائیر پورٹ چھوڑ آئے اور گرینی!آپ نے کیا انیکسی صاف کروا دی ہے؟ میرا سامان کل پرسوں تک آجائے گا۔”
اس نے نیپکن سے منہ پونچھتے ہوئے کہا تھا۔
”ہاں انیکسی بالکل صاف ہے۔ تم اس کی فکر مت کرو۔ کل کس وقت آ ؤ گے۔”
”رات تک آؤں گا ،آٹھ نو بجے!”
وہ ٹیبل سے کھڑا ہو گیا تھا۔
نانو نے ملازم کو آواز دے کر گاڑی نکلوانے کے لئے کہا تھا۔ ملازم نے چند لمحوں میں آکر گاڑی تیار ہونے کی اطلاع دی تھی۔ عمر نے اپنا کوٹ پہن لیا تھا اور فرش پر پڑا ہوا بریف کیس ملازم کو تھما دیا تھا۔
”اچھا گرینی! خدا حافظ”
وہ علیزہ کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے باہر نکل گیا تھا۔ نانو بھی اس کے پیچھے ہی پورچ چلی گئی تھیں۔
وہ بجھے ہوئے دل کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ گئی تھی۔ عمر کا رویہ اس کے لئے شاکنگ تھا۔ اس نے کبھی بھی اسے اس طرح نظر انداز نہیں کیا تھا جس طرح آج کیا تھا۔ اس کے پہلے والے قہقہے اور مسکراہٹیں تقریباً ختم ہو چکی تھیں۔ اب وہ صرف رسماً اور ضرورتاً مسکراتا رہا تھا۔ نانو اب واپس اندر آچکی تھیں۔ علیزہ خانساماں کو جس وقت چائے کا کہہ کر واپس آئی تو وہ لاؤنج میں فون پر کسی سے باتیں کر رہی تھیں۔
”وہ تو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی گیا ہے۔”
وہ فون پر کہہ رہی تھیں۔ وہ جان گئی کہ موضوع گفتگو عمر ہے۔
”اسلام آباد گیا ہے۔…… کل رات کو ہو گی……ہاں، میرا تو خیال ہے …… یہ کنفرمڈ ہی ہے!………اچھا تم آرہے ہو؟…… کل…کل کس وقت؟……ٹھیک ہے۔ اکیلے آؤ گے؟…… اچھا۔ میں اسے نہیں بتاؤں گی ،لیکن میرا خیال ہے وہ مجھے فون نہیں کرے گا……ٹھیک ہے۔”
نانو نے فون بند کر دیا تھا۔ علیزہ نے ان کے چہرے پر تشویش دیکھی تھی۔
”کیا بات ہے نانو ! کس کا فون تھا؟” علیزہ نے پوچھاتھا۔
”جہانگیر کا فون تھا۔ وہ کل آ رہا ہے!” انہوں نے متفکر انداز میں کہا تھا۔
”انکل جہانگیر ؟” علیزہ بھی حیران ہو گئی۔
”پتہ نہیں کہ ان کے درمیان کیا جھگڑ ا ہوا ہے۔ وہ بھی بہت ٹینس لگ رہا تھا۔ عمر کے بارے میں بہت غصہ سے بات کر رہا تھا ۔” نانو بے حد فکر مند نظر آرہی تھیں۔