”پاپا سو رہے ہیں ؟”
اسے یقین نہیں آیا تھا۔
”ہاں ! یہاں سب لوگ دیر سے ہی اٹھتے ہیں ، لیکن آدھے گھنٹے تک اٹھ ہی جائیں گے۔ آپ میرے ساتھ آئیں میں آپ کو آپکا کمرہ دکھا دیتی ہوں۔ آپ چاہیں تو کچھ دیر آرام کر لیں۔”
زرینہ نے اس کا بیگ اٹھا تے ہوئے کہاتھا۔ اب وہ اس کے آگے چل رہی تھی، اور علیزہ کا سارا جوش وخروش سرد ہو چکا تھا۔ وہ خاموشی سے زرینہ کے پیچھے چلتی گئی تھی۔ زرینہ نے ایک کمرے کا دروازہ اس کے لئے کھول دیا تھا۔ وہ کمرے تک علیزہ کی رہنمائی نہ بھی کرتی تب بھی علیزہ کو وہ کمرہ اچھی طرح یاد تھا۔ ہمیشہ یہاں آنے پر وہ اسی کمرے میں ٹھہرا کرتی تھی۔ کمرے کی کلر اسکیم اور پردوں اور کارپٹ کا رنگ بدلا جا چکا تھا۔ مگر سیٹنگ وہی تھی۔ زرینہ نے کمرے کے ایک کونے میں اس کا بیگ رکھ دیا تھا۔ علیزہ خاموشی سے بیڈ پر جا کر بیٹھی گئی تھی۔
”آپ کے لئے چائے لاؤں؟”
ملازمہ نے اس سے پوچھاتھا۔
”نہیں مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ، میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتی ہوں۔”
کچھ بجھے ہوئے دل کے ساتھ اس نے زرینہ سے کہا تھا۔
وہ سر ہلاتی ہوئی اس کمرے سے نکل گئی۔ وہ چپ چاپ بیڈ پر سیدھی لیٹ گئی۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی تھی کہ لاہور میں اس وقت نانو کیا کر رہی ہوں گی۔ وہ یقیناً دوپہر کا کھانا تیار کروارہی ہوں گی، اسے خیال آیا تھا اور شاید مجھے بھی یاد کر رہی ہوں گی۔ اس نے خود کو خوش کرنے کی کوشش کی تھی۔
بیڈ پر سیدھی لیٹی وہ بہت دیر تک چھت کو بے مقصد دیکھتی رہی پھر اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں جب وہ غنودگی کے عالم میں تھی تو اس نے دروازہ پر دستک سنی تھی۔ بے اختیار اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ دستک ایک بار پھر ہوئی، اور وہ اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”یس کم ان!” اپنے ذہن پر چھائی ہوئی غنودگی کو اس نے جھٹک کر دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ دروازہ کھول کر خانساماں کی بیوی اندر آئی تھی۔
”علیزہ بی بی ! سکندر صاحب اٹھ گئے ہیں اور آپ کو بلا رہے ہیں۔”
اس نے اندر آتے ہی اطلاع دی۔ علیزہ بے اختیار اپنے بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے کی مایوسی ایک دم غائب ہو گئی تھی۔
”پاپا کہاں ہیں ؟”اس نے زرینہ سے پوچھاتھا۔
”وہ لنچ کرنے کے لئے ڈائننگ روم میں گئے ہیں۔”
زرینہ نے اسے بتایاتھا۔
وہ اس کے ساتھ چلتی ہوئی کمرے سے باہر آگئی تھی۔
”ڈرائنگ روم میں وہ صرف اکیلے ہی ہیں ؟”
اس نے کوریڈور میں آکر زرینہ سے پوچھاتھا۔
”نہیں، سب لوگ وہیں ہیں، بڑے صاحب، شمامہ بی بی اور طلحہ۔”
اس نے علیزہ کے دادا، چچی اور ان کے بیٹے کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔
”انکل منان کہاں ہیں؟”
اس نے اپنے چچا کے بارے میں پوچھاتھا۔
”چھوٹے صاحب تو فیکٹری گئے ہوئے ہیں اور تانیہ بی بی ابھی سکول سے ہی نہیں آئیں۔”
زرینہ نے گھر کے باقی دو افراد کے بارے میں بھی اسے اطلاع دے دی، اور وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چلتی رہی۔
جب وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو سب لوگ گفتگو میں مصروف تھے۔ سکندر اسے دیکھ کر اپنی کرسی سے اٹھ کر اس کی طرف آئے اوراسے خود سے لپٹا لیاتھا۔
”میں تو تمہیں پہچان ہی نہیں سکا علیزہ! تم تو اتنی بڑی ہو گئی ہو؟”
انہوں نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا تھا علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
”اب تو تم میرے جتنی ہو گئی ہو!”
انہوں نے اسے بہلاتے ہوئے کہاتھا۔
”کیسی ہو تم؟”
”میں ٹھیک ہوں پاپا !آپ کیسے ہیں؟”
اس نے جواباً پوچھا تھا۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں ، اور تمہیں سفر میں کوئی پرابلم تو نہیں ہوا؟”
انہوں نے اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں!”
اس نے مختصراً جواب دیاتھا۔
”اپنے دادابو اور آنٹی سے ملی ہو؟”
اسے ساتھ لئے ہوئے ڈائننگ ٹیبل کی طرف جاتے ہوئے انہوں نے پوچھاتھا۔
”نہیں جب میں آئی تو سب لوگ سو رہے تھے!”
اپنی آنٹی کو دیکھ کر اس نے مسکراتے ہوئے کہاتھا، اور دادا ابو نے حسب عادت اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہو ئے اس کا حال احوال دریافت کیا۔ آنٹی نے اپنی کرسی سے کھڑے ہو کر اسے گلے لگا یا تھا۔
”تمہارے پاپا ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں کہ تم تو واقعی بہت بڑی ہو گئی ہو۔”
انہوں نے اس کے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
آنٹی میں چار سال بعد یہاں آئی ہوں۔ چار سال میں مجھے کچھ نہ کچھ تو بڑا ہونا ہی تھا۔”
اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے، بارہ سالہ طلحہ سے ہاتھ ملاتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا۔ اس کی چچی جواباً صرف ہلکے سے مسکرا دیں تھیں۔ سکندر اب اپنی کرسی پربیٹھ چکے تھے۔
”یہاں میرے پاس آ جاؤ علیزہ!”
انہوں نے اپنے بائیں طرف والی کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ وہ خاموشی سے ان کی طرف آئی تھی۔ سکندر اب دوبارہ اپنے باپ سے باتوں میں مصروف ہوچکے تھے۔ وہ ان کاچہرہ دیکھنے لگی، ان کے چہرے پر چند جھریوں کا اضافہ ہو چکا تھا۔ وہ پچھلی بار کی نسبت زیادہ فریش اور سمارٹ نظر آرہے تھے۔ اسے وہاں ان کے پاس بیٹھ کر عجیب قسم کے تحفظ کا احساس ہونے لگا۔
”علیزہ !کھانا شروع کرو بھئی، تم کس چیز کا انتظار کر رہی ہو؟”
اس کی چچی نے اسے مخاطب کرتے ہوتے کہا تھا۔
اس نے خاموشی سے پلیٹ اپنے آگے سرکا لی اور اس میں چاول ڈالنے لگی۔ سکندر ابھی بھی اپنے والد سے باتوں میں مصروف تھے۔ چچی اور طلحہ خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے، اور وہ جو کل سے یہ سوچ رہی تھی کہ یہاں آتے ہی سب اسے خاص اہمیت دیں گے۔ کیونکہ وہ چار سال کے بعد وہاں آئی تھی۔ بے حد دل گرفتہ تھی۔ یہاں کسی کو اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑاتھا۔
”حتیٰ کہ میرے پاپا کو بھی نہیں ،جو کل یہ کہہ رہے تھے کہ وہ مجھے بہت مس کر رہے ہیں۔”
اس نے بے دلی سے چاول کھاتے ہوئے سوچا۔ چچی نے کھانے کے دوران دو چار بار ڈشز اس کی طرف بڑھائی تھیں، مگر جب اس نے کھانے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی تو ان کا جوش و خروش بھی ٹھنڈا پڑگیا۔
اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی کہ نانو کے ساتھ کھانا کھانے اور پاپا کے ساتھ کھانے میں کیا فرق ہے؟ اسے احساس ہو ا تھا دونوں جگہ اس کے لئے کوئی خاص تبدیلی نہیں تھی۔