Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

کھانے کے دوران اس کے دادا ابو نے دو ، تین بار اسے مخاطب کیا تھا۔ اور پھر کھانے سے فارغ ہو کر وہ اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ آنٹی شمامہ بھی طلحہ کے ساتھ ڈائننگ روم میں سے نکل گئی تھی۔ تب اس کے پاپا نے اس سے دوبارہ گفتگو کا سلسلہ شروع کیاتھا۔
”اسٹڈیز کیسی جارہی ہیں تمہاری؟”
انہوں نے سویٹ ڈش نکالتے ہوئے پوچھاتھا۔
”بہت اچھی !”
وہ باپ کے مخاطب کرنے پر ایک بار پھر خوش ہو گئی تھی۔
”کونسی کلاس میں ہو؟”
اسے ان کے سوال پر یک دم دھچکا لگاتھا۔ اس کا خیا ل تھا انہیں یہ یاد ہو گا ہر بار فون پر وہ انہیں اپنی کلاس کے بارے میں ضرور بتایا کرتی تھی۔
”اے۔ لیولز میں”
مدھم آواز میں اس نے کہا تھا ۔
”آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے؟”
”آگے کے بارے میں ابھی سوچانہیں ، آپ بتائیں پاپا! مجھے آگے کیا کرنا چاہئے؟”
اس نے بڑے اشتیاق سے سکندر سے پوچھاتھا۔



”جو تم کرنا چاہتی ہو وہ کرو۔”
انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہاتھا۔
”مگر میں وہ کرنا چاہتی ہوں جو آپ چاہتے ہیں!”
”بھئی، میں کیا بتا سکتا ہوں کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے یہ تو تمہیں خو د طے کرنا ہے یا پھر تمہاری ممی اور نانو طے کریں گی۔”
سکندر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہاتھا۔
”نو پاپا ! ان سے نہیں آپ سے گائیڈینس لینا چاہتی ہوں، یقین کریں میں وہی کروں گی جو آپ مشورہ دیں گے۔”
اس نے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے جیسے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی تھی۔
اس کے پاپا نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔
”جو میں کہوں گا۔ چلو ٹھیک ہے اس پر بعد میں بات کریں گے۔”
انہوں نے بات کا موضوع بدل دیا تھا۔
”تمہارے نانا نانی کیسے ہیں؟”
”بالکل ٹھیک ہیں!”
”تمہارا خیال رکھتے ہیں ؟”
انہوں نے جیسے کچھ جانچنے کے لئے غور سے اس کی طرف دیکھتے ہو ئے پوچھا تھا۔
”بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں ، اور نانو تو ایک منٹ بھی میرے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ نانا بھی بہت کیئرنگ ہیں۔ ابھی بھی یہاں آنے پر وہ دونوں بہت اداس ہو رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ وہ مجھے بہت مس کریں گے۔ اصل میں ان دونوں کو میری بہت عادت ہو گئی ہے۔ میں نہیں ہوتی تو وہ تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نانو تو آنے ہی نہیں دے رہی تھیں کہ میں ابھی چند ہفتہ پہلے ہی آسٹریلیا سے آئی ہوں، اور اب پھر جارہی ہوں۔ مگر میں ضد کر کے آئی ہوں، وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں، پھر بھی پاپا میرا وہاں دل نہیں لگتا۔” ا س نے جھوٹ کا ایک انبار جمع کرتے ہوئے کہاتھا۔ سکندر اس کی باتوں سے جیسے مطمئن ہو گئے تھے ،ایک بار پھر وہ سویٹ ڈش کی طرف متوجہ ہو گئے۔
”کیوں ! دل کیوں نہیں لگتا؟”
انہوں نے پوچھاتھا۔
”میں آپ کو بہت مس کرتی ہوں۔”
وہ کہنا چاہتی تھی کہ وہ ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، مگر وہ کچھ جھجک کر بات بدل گئی تھی۔



”تمہیں ان کی محبت کی قدر کرنی چاہئے۔آخر وہ تمہاری اتنی پرواہ کرتے ہیں ، تمہیں کوشش کرنی چاہئے کہ تمہارا دل بھی وہاں لگا رہے!”
انہوں نے جو کہا تھا۔ وہ ان سے نہیں سننا چاہتی تھی۔ کچھ مایوس ہو کر اس نے باپ کی طرف دیکھاتھا۔
”میں کوشش کرتی ہوں۔”
کچھ بے دلی سے اس نے کہاتھا۔
”تمہاری آنٹی اپنے میکے گئی ہوئی ہیں ، شام کو آ جائیں گی تو تم مل لینا ان سے۔”
انہوں نے اسے بتایا تھا۔ علیزہ نے غور سے باپ کا چہرہ دیکھا وہ بہت مطمئن نظر آ رہے تھے۔
”وہ آپ کے ساتھ آئی ہوئی ہیں۔”
”ہاں ! وہ میرے ساتھ آئی ہوئی ہیں۔”
وہ کچھ چپ سی ہو گئی۔ اس کے باپ نے اس کی خاموشی کو بغور نوٹ کر لیاتھا۔
”تمہارے لئے کچھ چیزیں لے کر آیا ہوں، کچھ چیزیں تمہاری آنٹی نے بھی پسند کی ہیں۔ شام کو جب وہ آئیں گی تو خود ہی تمہیں دیں گی۔”
انہوں نے اسے اطلاع دی تھی۔
”مجھے ایک ضروری کام سے باہر جانا ہے ۔ تم آرام کرو یا پھر اپنی آنٹی وغیرہ سے باتیں کرو، شام کو تم سے دوبارہ ملاقات ہو گی۔”
انہوں نے سویٹ ڈش ختم کرنے کے بعد ٹیبل سے کھڑے ہو تے ہوئے کہاتھا۔ وہ بھی خاموشی سے ان کے ساتھ ہی کھڑی ہو ئی۔
”کیا میں اس طرح ان کے ساتھ ایک ہفتہ گزاروں گی۔”
اپنے کمرے میں جانے کے بعد اس نے کچھ دل گرفتگی سے سوچاتھا۔
”پاپا کو پتہ ہو نا چاہئے تھا کہ میں چار سال کے بعد ان سے مل رہی ہوں کیا ان کے پاس میرے لئے تھوڑا سا وقت بھی نہیں ہے؟”
وہ ایک بار پھر بیڈ پر لیٹ گئی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!