Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

وہ تین سال کی تھی، جب اس کے والدین کے درمیان طلاق ہو گئی تھی۔ طلاق کی وجوہات پر دونوں میں سے کسی نے بھی روشنی ڈالنا پسند نہیں کیا تھا اس لئے وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے والدین کے درمیان کون سے اختلافات تھے۔ ان دونوں سے یہ سوال پوچھنے کی ہمت وہ کبھی نہیں کر سکی مگر نانو سے اس نے چند ایک بار یہ سوال پوچھا تھا اور ملنے والا جواب اس کی تسلی نہیں کر سکا تھا۔ وہ ہمیشہ یہی کہہ دیتی تھیں کہ ان دونوں کے درمیان انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہوئی۔
طلاق کے بعد علیزہ اپنی ماں کی کسٹڈی میں رہی تھی۔ سکندر نے اس سلسلے میں پورا تعاون کیا تھا۔ طلاق کے ایک سال کے اندر علیزہ کی ممی کی دوسری شادی ہو گئی تھی اور تب یہ طے پایا تھا کہ علیزہ اپنے نانی، نانا کے پاس رہے گی۔
سکندر نے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ وہ خود بھی دوسری شادی کرنا چاہ رہے تھے، اور علیزہ کی ذمہ داری اٹھانے سے کچھ گریزاں تھے، ان کے اپنے گھر میں ایسا کوئی نہیں تھا جو علیزہ کو پال سکتا اور وہ اسے اتنی چھوٹی عمر میں اپنے ساتھ مسقط بھی نہیں لے جا سکتے تھے اور نہ ہی وہ لے جانا چاہتے تھے کیونکہ یہ ایک بہت بڑی ذ مہ داری تھی۔ اس لئے انہوں نے علیزہ کو مستقل طور پراس کے ننھیال کے حوالے کر دیا تھا، ہر ماہ وہ اس کے اخراجات کے لئے ایک اچھی خاصی رقم اس کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروا دیتے تھے اور ان کی یہ روٹین اب تک جاری تھی۔



طلاق کے دو سال بعد انہوں نے اپنی پسند کی دوسری شادی کر لی تھی ا ور وہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ مسقط لے گئے تھے۔ علیزہ سے چند ماہ کے وقفے سے وہ فون پر باتیں کیا کرتے تھے اور پاکستان آنے پر چند دن کے لئے اس کو اپنے پاس بلوا لیا کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کی ذمہ داری یہیں پر پوری ہو جاتی تھی۔
علیزہ کی ممی اپنے شوہر کے ساتھ آسٹریلیا میں مقیم تھیں اور علیزہ کے ساتھ ان کا سلوک بھی سکندر سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ وہ چھٹیوں میں علیزہ کو اپنے پاس آسٹریلیا بلوا لیا کرتی تھیں۔ چھٹیاں گزارنے کے بعد علیزہ واپس پاکستان آجایا کرتی تھی۔ پچھلے کئی سالوں سے گرمیوں کی چھٹیوں میں اس کا یہی معمول تھا۔
اس کی ممی اور پاپا بہت پرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ شاید ان میں سے کسی کو بھی اپنی سابقہ زندگی کا خیال بھی نہیں آتا تھا۔ وہ ہر بار ان سے ملنے کے بعد سوچا کرتی تھی کہ اس کے بغیر بھی وہ دونوں بہت خوش تھے شاید ان دونوں کو کبھی اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی ہو گی اور وہ صرف فرض نبھانے کے لئے اسے اپنے پاس بلاتے ہوں گے۔ ماں باپ سے ملنے کے لئے وہ جتنی بے تاب رہی تھی۔ ان سے ملنے کے بعد اس کی بے چینی اور مایوسی بھی اتنی بے چین ہو جاتی تھی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!