Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

وہ جس وقت دوبارہ بیدار ہوئی تھی اس وقت شام ہو رہی تھی۔ اپنا بیگ کھول کر اس نے کپڑے نکالے تھے اور نہانے کے لئے وہ باتھ روم میں چلی گئی تھی۔
آدھ گھنٹہ کے بعد وہ تیار ہو کر لاؤنج میں آئی تھی، وہاں کوئی نہیں تھا۔ کچھ سوچ کر وہ باہر لان میں نکل آئی تو آنٹی شمامہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔ طلحہ سائیکل چلا رہا تھا اور تانیہ آنٹی کے ساتھ بیٹھی ہو ئی تھی۔
وہ آج یہاں آنے کے بعد ابھی تانیہ سے نہیں ملی تھی۔ پچھلی بار چار سال پہلے وہ یہاں آئی تھی تو تانیہ صرف چار سال کی تھی۔ وہ چلتی ہوئی ان کے پاس آگئی۔ آنٹی شمامہ نے تانیہ سے اس کا تعارف کروایاتھا۔ علیزہ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تھا اور تانیہ نے کچھ شرماتے ہوئے ہاتھ ملا لیا۔ وہ کرسی کھینچ کر ان کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔ کچھ دیر تک تینوں خاموش رہے تھے پھر علیزہ نے پوچھا
”انکل منان ابھی واپس نہیں آئے؟”
”نہیں، وہ تو نو بجے کے قریب آتے ہیں۔”
ایک با رپھر خاموشی چھا گئی اور علیزہ کی طرح شاید آنٹی شمامہ بھی اسی الجھن میں گرفتار تھیں کہ اس سے کیا بات کی جائے۔ ایک بار پھر علیزہ نے ہی پہل کی تھی۔
”پاپا کب تک آئیں گے؟”
”وہ تمہاری آنٹی کو لینے گئے ہیں اور میرا خیال ہے ۔کچھ دیر تک آ جائیں گے۔”
آنٹی نے اسے بتایا۔
”دادا ابو کہاں گئے ہیں؟”
”پاپا گالف کھیلنے گئے ہوئے ہیں وہ بھی آنے والے ہی ہوں گے !”



علیزہ ایک بار پھر اگلے سوال کی تلاش میں سرگرداں تھی مگر اس بار آنٹی شمامہ نے اس کی یہ مشکل حل کر دی تھی۔
”کراچی کیسا لگا؟”
فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ صبح ائیر پورٹ سے گھر تک دیکھے جانے والے کراچی کے بارے میں وہ کیا تبصرہ کر سکتی تھی ۔
”اچھا ہے !”
اس نے مختصر جواب دیاتھا۔
”ملنے آ جایا کرو کبھی کبھی ، تم صرف تب ہی آتی ہو جب تمہارے پاپا آتے ہیں۔”
انہوں نے شکوہ کیا تھا یا دعوت دی تھی۔ اسے اندازہ نہیں ہو سکا تھا۔ اسے اندازہ لگانے میں کبھی بھی مہارت نہیں رہی تھی۔ وہ ان سے یہ نہیں کہہ سکی کہ اسے صرف پاپا کے آنے پر ہی بلایا جاتا ہے۔ وہ خاموش رہی۔
”اپنی ممی سے ملتی رہتی ہو؟”
انہوں نے اچانک پوچھا تھا۔
علیزہ نے انہیں دیکھا وہ بہت متجسس نظر آ رہی تھیں۔
”ہاں ! ممی کے پاس تو جاتی رہتی ہوں ، ہر سال چھٹیاں وہیں ان کے پاس گزارتی ہوں۔ وہ چاہتی ہیں کہ میں ان کے پاس وہیں رہوں لیکن یہ مجھے بہت مشکل لگتا ہے۔ یہاں نانا اور نانو ہیں میرے بغیر وہ بالکل اکیلے ہو جاتے ہیں۔ ان کے بغیر میر اکہیں اور دل نہیں لگتا۔ اس لئے میں ہر بار ممی کو ناراض کر کے واپس آجاتی ہوں۔”
اس نے ایک بار پھر جھوٹ کا جال بننا شروع کر دیا۔ آنٹی شمامہ نے بھی جواباً کچھ نہیں کہا تھا۔
”کتنے دن کے لئے آئی ہو؟”
کچھ دیر بعد انہوں نے اچانک پوچھا تھا۔
“یہ تو پاپا پر ڈیپینڈ کرتا ہے، وہ چاہ رہے ہیں کہ جب تک یہاں ہیں میں ان کے پاس رہوں۔”
اس نے جال کو ایک اور گرہ لگائی تھی۔
”یعنی دو ہفتوں کے لئے۔”
شمامہ آنٹی نے کہاتھا۔
علیزہ کچھ حیران ہوئی تھی۔



”کیا پاپا اس بار صرف دو ہفتوں کے لئے آ ئے ہیں؟”
”نہیں سکندر بھائی کو تو پاکستان آئے یہ چوتھا مہینہ ہے، اب تو دو ہفتہ بعد وہ واپس جانے والے ہیں۔”
آنٹی شمامہ نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے پر سکون انداز میں کہاتھا۔ گرہ ایک دم سے جیسے کھل گئی تھی اور علیزہ کو بری طرح سے جھٹکا لگاتھا۔
”چار ماہ سے پاپا یہاں ہیں ، یعنی میرے آسٹریلیا جانے سے بھی بہت پہلے پاپا پاکستان آئے تھے اور تب فون پر بات کرنے کے باوجود انہوں نے مجھے بتایا نہیں۔ انہیں میرا خیال اس وقت آیا جب وہ واپس جارہے ہیں۔”
وہ کچھ نہیں بول سکی۔
”کیا پاپا کو بالکل ہی میری ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔”
اس نے سوچا۔
”مگر کل انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ بھی مجھے مس کرتے ہیں تو کیا وہ جھوٹ بول رہے تھے؟”
وہ الجھ گئی تھی۔



”میں پاپا کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پاپا مجھے مس نہ کرتے ہوں ، ہو سکتا ہے وہ واقعی مصروف ہوں۔”
اس نے ایک بار پھر خود کو بہلانے کی کوشش کی۔ آنٹی شمامہ اس سے کچھ کہہ رہی تھیں وہ چونک کر ان کی طرف متوجہ ہو گئی۔
”سکندر بھائی اگلے سال پاکستان شفٹ ہو رہے ہیں۔”
اس کے لئے یہ خبر بھی حیران کن تھی۔
”پاپا نے مجھے نہیں بتایا۔”
اس نے سوچا تھا۔
”اگلے سال؟”
اس نے آنٹی شمامہ سے پوچھا تھا۔
”ہاں اگلے سال تک ان کا گھر مکمل ہو جائے گا۔”
آج شاید اس کے لئے حیرانیوں کا دن تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!