Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

نوبجے ایک ریسٹورنٹ میں انہوں نے ڈنر کیا اور اس کے بعد جب وہ گاڑی میں بیٹھے تو احسن نے ایک بار پھر شور مچا دیا۔
”پاپا ! اب ہم اپنے گھر جائیں گے۔ آپی کو گھر دکھانا ہے نا۔”
”ہاں ! ٹھیک ہے وہیں جا رہے ہیں ، مجھے یاد ہے۔”
اس نے پاپا کی مدھم سی آواز سنی تھی۔
انہوں نے گاڑی کا رخ موڑتے ہوئے بیک ویو مرر سے علیزہ کو دیکھا۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ سکندر اس کے چہرے سے کوئی بھی اندازہ لگانے میں ناکام رہے تھے۔
آدھ گھنٹہ گاڑی ڈرائیو کے بعد علیزہ نے ایک چھوٹے سے بنگلے کے سامنے گاڑی رکتے دیکھی تھی۔ دروازے پر ایک چوکیدار موجود تھا جس نے دروازہ کھول دیاتھا۔ سکندر گاڑی کو اندر پورچ میں لے گئے ، بنگلے کی بیرونی لائٹس آن تھیں، اور ان لائٹس کی روشنی میں پورچ اور لان میں پڑا ہوا تعمیراتی سامان نظر آرہا تھا۔ سکندر نے چوکیدار کو اندرونی دروازہ کھولنے کے لئے کہاتھا۔
علیزہ، حسن اور احسن کے ساتھ گاڑی سے نکل آئی تھی۔ چند لمحوں کے لئے پاپا سے اس کی خفگی ختم ہو گئی تھی گھر کو دیکھتے ہوئے اسے ایک خوشگوار احساس نے گھیر لیا تھا۔ اس کے باپ کا پاکستان میں ہونے کا یہ مطلب تھا کہ وہ ان کے پاس مستقل طور پر رہ سکتی تھی۔ احسن اسے بڑے پر جوش انداز میں کمرے دکھا رہا تھا اور سکندر اور غزالہ لاؤنج میں چوکیدار کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئے تھے۔ وہ شاید اسے کچھ ہدایات دے رہے تھے۔



”یہ پاپا اور ممی کا کمرہ ہے!”
اس نے ایک کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے علیزہ سے کہا تھا۔
اس نے کچھ دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے خالی کمرے میں جھانکاتھا۔ احسن نے آگے بڑھ کر لائٹ آن کر دی تھی۔ چند لمحوں تک اس کمرے میں رہنے کے بعد وہ ان کے ساتھ باہر نکل آئی تھی۔
”یہ ساتھ والا کمرہ مریم کا ہے۔” احسن نے ایک اور کمرے کا دروازہ کھول کر لائٹ آن کی تھی۔ اس بار علیزہ نے اندر جانے کی بجائے باہر سے ہی جھانکنے پر اکتفا کیا تھا۔
”اور یہ سامنے والا کمرہ گیسٹ روم ہے!”
وہ اب اسے ایک اور کمرہ دکھا رہا تھا۔
”اب آئیں ،اوپر چلتے ہیں اور آپ کو اپنا بیڈ روم دکھاتا ہوں۔” وہ یک دم پر جوش نظر آنے لگا تھا۔
”اور میرا بیڈ روم نہیں دکھاؤ گے؟” حسن منمنایا تھا۔
”ہاں! تمہارا بھی دکھاؤں گا۔”
اس نے علیزہ کے ساتھ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے حسن کو چمکارا تھا۔



اوپر آنے کے بعد احسن نے ایک کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا تھا۔ ”اور یہ اس گھر کا سب سے خوبصورت بیڈ روم ہے، میرا بیڈ روم۔”
علیزہ سرسری طور سے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے صرف بے دلی سے مسکرائی تھی۔
”اور یہ میرا بیڈ روم ہے۔”
حسن اتنی دیر میں ایک اور کمرے کا دروازہ کھول چکا تھا، اور اس کے پیچھے علیزہ بھی اس کے کمرے میں داخل ہو گئی تھی۔
”بس اب نیچے چلتے ہیں۔”
احسن نے اس کے پیچھے آکرکہا تھا۔
اسے ایک جھٹکا لگاتھا۔
”احسن! میر ابیڈ روم کہاں ہے؟”
اس نے احسن کے کمرے سے نکلتے ہوئے کچھ اشتیاق سے احسن سے پوچھا تھا۔
”آپ کا بیڈ روم؟”
وہ اس کی بات پر حیران ہو ا تھا۔
”مگر آپ تو ہمارے ساتھ نہیں رہتیں!”
اس نے علیزہ سے کہا تھا۔
”اس گھر میں تو بس اتنے ہی بیڈ رومز ہیں۔”
علیزہ کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیاتھا۔
”بس اتنے ہی بیڈ رومز ہیں؟”
اس نے کچھ بے یقینی سے کہا تھا۔
”ہاں ! بس اتنے ہی بیڈ رومز ہیں ، آپ کو ہمارا گھر اچھا لگا؟”
اس نے بات کرتے کرتے علیزہ سے پوچھا۔
”ہاں!”
اس نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہاتھا۔
وہ ان دونوں کے ساتھ ایک بار پھر نیچے لاؤنج میں آگئی۔
”پاپا ! آپی پوچھ رہی تھیں۔ میرا بیڈ روم کہاں ہے؟”
حسن نے نیچے آتے ہی پاپا کواطلاع دی تھی۔ علیزہ کی نظریں سکندر سے ملی تھیں۔ وہ بڑی مہارت سے نظریں چرا گئے۔
”گیسٹ روم ہے نا ، تم جب بھی آیا کرو گی وہاں رہ سکتی ہو؟”
سکندر نے کمال فیاضی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا۔



”میرا خیال ہے کہ اب چلنا چاہئے ۔”
وہ کہہ کر غزالہ کے ساتھ باہر کی طرف بڑھ گئے تھے ۔ وہ بھی حسن اور احسن کے ساتھ دروازے کی طرف جانے لگی تھی۔
”تمہارا کالج کب کھلے گا؟”
سڑک پر گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے سکندر نے اس سے پوچھا تھا۔
”اس سیٹرڈے کو!”
اس نے باہر سڑک گھورتے ہوئے کہا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!