Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

امر بیل ۔قسط ۵۔ عمیرہ احمد

باب 12

وہ نانو کے پیچھے ان کے بیڈ روم میں داخل ہو گئی تھی۔

”بیٹھو۔”

نانو نے اندر داخل ہوتے ہی اس سے کہا تھا۔ وہ خاموشی سے صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔ نانو خود اپنے بیڈ پر بیٹھ گئیں۔

”تم نے عمر سے کیا کہا تھا؟”

چند لمحوں کی خاموشی کے بعد انہوں نے اسی اکھڑے ہوئے لہجے میں اس سے پوچھا تھا۔

”میں نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا ۔یہ سب کچھ عمر ہی کا کیا دھرا ہے۔” اس نے نانو کے سوال پر سوچا تھا۔

”میں سمجھی نہیں نانو!”

”میں نے اتنا مشکل سوال تو نہیں پوچھا۔ صرف یہی پوچھا ہے کہ تم نے عمر کو کیا کہا تھا۔”

”نانو کس بارے میں؟”

”اس گھر سے چلے جانے کے بارے میں !”

علیزہ بالکل ساکت ہو کر رہ گئی۔

”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں نانو ، میں نے اس سے کیا کہا ہے؟”

”تمہاری وجہ سے وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ میں نے اس سے کیا کہا ہے؟”

اس بار نانو کا لہجہ پہلے سے بھی زیادہ تلخ تھا۔

وہ حیرانی سے ان کاچہرہ دیکھتی رہی۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”نانو میں نے اس سے گھر چھوڑنے کے لئے نہیں کہا، آئی سوئیر! میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔”

وہ روہانسی ہو گئی تھی۔

”تو پھر وہ کسی وجہ کے بغیر ہی گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔”

اس با ر نانو کا لہجہ طنزیہ تھا۔

”مجھے نہیں پتہ کہ وہ کیوں گھر چھوڑ گیا ہے۔، بٹ بلیو می نانو! کہ میں نے اسے گھر چھوڑنے کے لئے نہیں کہا۔ میں آخر اس سے ایسی بات کیوں کہتی۔”

وہ اپنی صفائی دینے کی کوشش کر رہی تھی۔

“تم نے اسے گھر چھوڑنے کے لئے نہیں کہا مگر تم نے ایسے حالات پیدا کردئیے کہ وہ یہاں نہیں رہے۔”

وہ نانو کے اس الزام پر ہکا بکا رہ گئی۔

”نانو میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا!”

”میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا علیزہ کہ تم اس طرح کی حرکتیں کرو گی۔ تم نے میری ساری عمر کی محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔”

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”نانو پلیز ! آپ اس طرح مت کہیں۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے عمر گھر چھوڑ کر چلا گیا ہو۔”

”علیزہ ! میں نے اس سے بات کی تھی ، تمہارا کیا مطلب ہے، میں نے اسے ایسے ہی جانے دیا ہے، اسی نے مجھے بتایا تھا کہ تمہیں اس کا یہاں رہنا پسند نہیں ہے اور وہ یہاں رہ کر خوامخواہ کی ٹینشن کھڑی نہیں کرنا چاہتا، اور میں یہی جاننا چاہتی ہوں کہ تمہیں اس کے یہاں رہنے پر کیا اعتراض ہے؟”

نانو نے تیز آواز میں بات کرتے ہوئے کہا تھا۔علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

”نانو وہ جھوٹ بولتا ہے۔”

”وہ جھوٹا ہے اور تم؟”

”نانو ! اس نے آپ سے ایک بات کہہ دی اور آپ نے سوچے سمجھے بغیر اس کی بات کا یقین کر لیا۔ اب میں جب ایکسپلی نیشن دے رہی ہوں تو آپ میری بات ہی سننے کو تیار نہیں ہیں۔”

وہ بالکل روہانسی ہو رہی تھی۔

<!–nextpage–>

”آپ کو عمر کی ہر جھوٹی بات پر یقین آجاتا ہے مگر میری بات پر یقین نہیں ہے۔”

”عمر جھوٹ نہیں بولتا!”

نانو کے جملے نے اس کی رنجیدگی میں اضافہ کر دیاتھا۔

”اور میں……آپ سمجھتی ہیں کہ میں جھوٹ بولتی ہوں؟”

”مجھے تم سے فضول بحث نہیں کرنی۔ میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ تمہیں عمر کا یہاں رہنا کیوں پسند نہیں ہے؟”

”نانو ! میں نے آپ سے کتنی بار کہا ہے کہ مجھے اس کے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اسے ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ، یہاں تو بہت سے لوگ آتے اور رہتے ہیں ، کیا میں نے پہلے کبھی کسی کے رہنے پر اعتراض کیا ہے پھر اب عمر کے رہنے پر کیوں کروں گی۔”

اس نے ایک کے بعد ایک وضاحت دیتے ہوئے کہاتھا۔

”آپ اسے دوبارہ واپس بلا لیں۔”

نانو کچھ دیر اسے دیکھتی رہی تھیں۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”وہ اب یہاں واپس نہیں آئے گا۔ یہ بات صاف صاف کہہ کر گیا ہے ، کم از کم رہنے کے لئے تو دوبارہ واپس نہیں آئے گا۔”

”آپ بتائیں نانو! اس میں میرا کیا قصور ہے۔ وہ اپنی مرضی سے یہاں ایا۔ اپنی مرضی سے واپس یہاں سے چلا گیا۔ اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔”

”اگر تم اس کے ساتھ وہ سلوک نہ کرتیں جو تم نے کیا تو شاید وہ اس طرح سے یہاں سے نہ جاتا۔” نانو ابھی بھی اپنی بات پر جمی ہوئی تھیں۔

”میں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ نانو! میں نے تو اس کے ساتھ کوئی برا سلوک نہیں کیا۔”

”علیزہ ! تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے، مجھے کم از کم تم سے اس طرح کے رویے کی توقع نہیں تھی۔ اتنے سالوں سے میں اتنی محبت سے تمہاری پرورش کرتی رہی ہوں اور تم نے چند ہفتے میں اس ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ کیا سوچتا ہو گا عمر کہ میں نے تمہیں اس طرح کی تربیت دی ہے اور جب وہ جا کر اپنے باپ سے اس بات کا ذکر کرے گا تو جہانگیر میرے اور تمہارے بارے میں کیا سوچے گا۔ یہ گھر صرف تمہارا نہیں، ان سب کا بھی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ یہاں بہت کم آکر رہتے ہیں مگر نہ رہنے سے اس گھر پر ان کا حق تو ختم نہیں ہو جاتا۔ عمر ہو یا تمہارا کوئی اور کزن، تمہیں کوئی اختیار حاصل نہیں کہ تم ان کے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض کر ویا اپنی ناپسندیدگی کا اظہار اپنے رویے سے کرو۔”

وہ چپ چاپ نانو کی باتیں سنتی رہی تھی۔ نانو بہت دفعہ اسے ڈانٹ دیا کرتی تھیں مگر آج ان کا رویہ بہت زیادہ سخت تھا۔ جس طرح آج وہ اس سے بات کر رہی تھیں۔اس طرح سے انہوں نے پہلے کبھی نہیں کی تھی۔

”عمر کے ساتھ تو خیر جو کچھ تم نے کیا سو کیا مگر آئندہ یہ حرکت پھر کبھی مت کرنا۔ تم اب بچی نہیں ہو جسے ساری باتیں سمجھانا پڑیں۔ بڑی ہو چکی ہو، ہر چیز سمجھ سکتی ہو۔ بہتر ہے کہ اپنے رویے کو ٹھیک کرو۔اب جاؤ یہاں سے۔ مجھے کچھ کام ہے۔”

انہوں نے ایک لمبے چوڑے وعظ کے بعد بات ختم کردی وہ شاک کی حالت میں ان کے بیڈ روم سے نکل کر آئی تھی۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”سارا قصور صرف میرا ہے اور کسی کا نہیں۔ عمر کا بھی نہیں۔ اس کے یہاں سے چلے جانے کی وجہ سے میری ہر خوبی خامی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ نانو کو میں بد تمیز لگنے لگی ہوں۔ عمر کی نانو کو پرواہ ہے ،میری نہیں!”

وہ اپنے بیڈ روم کی طرف جاتے ہوئے کچھ اور ہی دل گرفتہ ہو گئی تھی۔

”میری کسی کو ضرورت ہی نہیں ہے۔ ممی کو نہیں، پاپا کو نہیں، نانو کو بھی نہیں، ضرورت تو عمر جیسے بندے کی ہوتی ہے۔ جس کی دنیا میں کوئی ویلیو ہو۔”

اس کی رنجیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

”کس قدر فراڈ انسان ہے۔ مجھ سے اور طرح کی باتیں کرتا تھا اور میرے جاتے ہی یہاں چکر چلانے شروع کر دئیے مجھے اپنا دوست کہہ کراس نے میرے ساتھ ایسے کیا۔”

اور عمر جہانگیر کے لئے اس کی ناپسندیدگی میں کچھ اور ہی اضافہ ہوگیاتھا۔

دوپہر کو مرید کے بلانے پر بھی وہ لنچ کے لئے نہیں آئی ، اس کا خیال تھا کہ نانو اسے آکر خود ہی لنچ کے لئے کہیں گی ، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نانو نے اسے دوبارہ لنچ کے لئے نہیں کہا اور وہ بھی اپنے کمرے سے نہیں نکلی۔

شام کو سو کر اٹھنے کے بعد وہ نہانے کے لئے باتھ روم میں چلی گئی۔ اس وقت اسے واقعی بھوک لگ رہی تھی نہانے کے بعد نیم دلی سے وہ اپنے کمرے سے نکل آئی تھی۔ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی کانوں میں پڑنے والی آواز سے اس کا خون کھولنے لگا تھا۔ وہ عمر کی آواز تھی۔ اگر وہ لاؤنج میں داخل نہ ہوئی ہوتی اور نانو اور عمر نے اسے نہ دیکھا ہوتا تو وہ وہیں سے واپس اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ اس وقت وہ کسی صورت بھی عمر کی شکل دیکھنا نہیں چاہتی تھی مگر لاؤنج میں داخل ہوتے ہی عمر کی نظر اس پر پڑ گئی تھی۔ نہ صرف اس نے علیزہ کو دیکھ لیا تھا، بلکہ فوراً اسے مخاطب بھی کیاتھا۔

<!–nextpage–>

”ہیلو علیزہ ! اتنی جلدی واپسی؟”

اس نے کچھ حیرانی سے علیزہ سے پوچھاتھا۔ علیزہ نے ایک نظر صوفہ پر بیٹھے ہوئے عمر پر ڈالی اور پھر نانو کی ساری نصیحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کوئی جواب دیئے بغیر کچن میں چلی گئی۔ اپنے پیچھے سے ایک بار پھر عمر کو اپنا نام پکارتے ہوئے سنا۔ مگر اس وقت وہ دنیا کا آخری شخص تھا، جس سے وہ بات نہ کرنا چاہتی تھی۔

”اگر یہ یہاں سے چلا گیا ہے تو اب یہاں کیا لینے آیا ہے۔”

اس نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے تلخی سے سوچاتھا۔

”اور اسے اس بات سے کیا کہ میں اتنی جلدی واپس کیوں آئی ہوں۔”

اس وقت اس کا غصہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔

”مرید بابا ! مجھے کچھ کھانے کے لئے دے دیں۔”

اس نے کچن میں داخل ہوتے ہی خانساماں سے کہا تھا۔

”علیزہ بی بی ! آپ کچھ دیر انتظار کرلیں۔ میں ابھی کھانا لگانے ہی والا ہوں۔ پھر آپ سب کے ساتھ ہی کھانا کھا لیجئے گا۔” خانساماں نے اس سے کہا تھا۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”نہیں مجھے ابھی کچھ کھانا ہے اور ان سب کے ساتھ بیٹھ کر کچھ نہیں کھانا ۔”

اس نے ضد کی تھی۔ خانساماں نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔ علیزہ نے کبھی ضد نہ کی تھی، اور پھر اس طر ح کی ضد……اس نے کچھ کہنے کی بجائے کھانے کی کچھ چیزیں کچن کی ٹیبل پر رکھنی شروع کر دیں۔ اس وقت علیزہ نے لاؤنج میں سے نانا کی آواز سنی تھی۔ وہ اس کا نام پکار رہے تھے۔ وہ بے اختیار کچن سے باہر نکل آئی۔

”علیزہ تم رات کو بھی مجھ سے ملی ہی نہیں۔ آتے ہی سو گئیں۔”’

انہوں نے اسے دیکھتے ہی شکوہ کیاتھا۔

”کراچی سے اتنی جلدی کیوں واپس آگئیں؟”

انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔

”بس میر ا دل نہیں لگا وہاں ، حالانکہ پاپا تو بہت کہہ رہے تھے اور ناراض بھی ہو گئے تھے میرے اس طرح سے جلدی چلے آنے پرمگر میں آپ لوگوں کو مس کر رہی تھی۔” اس نے ایک بار پھر جھوٹ بولنا شروع کر دیا تھا۔

”بہت اچھا کیا اتنی جلدی واپس آکر!”

نانا نے اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا تھا، اور وہ کچھ مطمئن ہو گئی تھی کم از کم نانا تواس سے ناراض نہیں تھے۔ اس نے سوچا عمر نانو کے ساتھ صوفہ پر بیٹھا بڑی خاموشی سے اس کی نانا کے ساتھ ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔ اس بار اس نے علیزہ کو مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

”مرید سے کہو کھانا لگا دے!”

نانا نے نانو سے کہاتھا۔

”گرینڈ پا ! میں تو کھانا نہیں کھاؤں گا۔”

عمر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔

”کیوں، اب تمہیں کیا ہوا ہے؟”

”کچھ بھی نہیں بس مجھے ابھی تھوڑی دیر میں واک پر جانا ہے اور اب میں نے کھانا واک سے واپسی پر کھانا شروع کر دیا ہے۔”

”یہ ایک انتہائی احمقانہ حرکت ہے۔ واک سے واپسی پر کھانا۔”

نانا نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔

”میں تو اپنی کچھ چیزیں لینے آیا تھا ۔یہ تو بس گرینی نے پکڑ کر بٹھا لیا۔”

اس نے مسکراتے ہوئے کہاتھا۔

”جو چیزیں تمہیں لینی ہیں، ضرور لو لیکن کھانا کھائے بغیر تم یہاں سے نہیں جا سکتے۔ سمجھے تم!”

نانا نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہاتھا۔

<!–nextpage–>

اس نے کچھ اور کہنے کی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے اس کی بات نہیں سنی تھی۔ علیزہ کو ایک بار پھر اپنا آپ بیک گراؤنڈ میں جاتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ یوں لگ رہا تھا وہاں صرف عمر اور نانا، نانو ہی تھے، کوئی چوتھا شخص نہیں۔ کسی چوتھے شخص کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ نانا کی پوری توجہ اب عمر پر مرکوز تھی۔ وہ ملول ہونے لگی تھی۔

خانساماں نے کھانا لگا دیا تھا اور علیزہ نے بڑی خاموشی کے ساتھ کھانا کھا یا تھا۔ عمر کے ساتھ ٹیبل پر اس کی دوبارہ کوئی بات نہیں ہوئی تھی ، نہ ہی وہ اس کی طرف متوجہ تھا۔ وہ نانا سے باتوں میں مشغول تھا،اور کھانا کھانے کے بعد نانا کپڑے بدلنے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ نانو کافی بنانے کے لئے کچن میں گئی تھیں اور ان کے جانے کے بعد عمر بھی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ علیزہ ڈائننگ ٹیبل پر بالکل اکیلی بیٹھی رہ گئی تھی۔ بڑی بے دلی کے ساتھ وہ اپنی پلیٹ میں موجود کھانا کھاتی رہی۔ پھر یک دم پلیٹ چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

عمر کے کمرے کے دروازے پر دستک دینے سے پہلے وہ ہچکچائی تھی پھر اس نے دروازے پر دستک دی۔

”یس کم ان!”

اندر سے عمر کی آواز ابھری تھی۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

وہ آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ عمر کارپٹ پر ایک بیگ کھولے کچھ چیزیں اس میں رکھنے میں مصروف تھا۔ علیزہ کو دیکھ کر کچھ حیران ہواتھامگر پھر اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔

”آؤ علیزہ !” وہ بدستور اپنے کام میں مصروف تھا۔

”بیٹھ جاؤ!” ایک بار پھر علیزہ کو دیکھتے ہوئے کہاتھا۔

”میں بیٹھنے کے لئے نہیں آئی۔” اس نے خفگی سے کہا تھا۔

وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا تھا اور پھر ہولے سے ہنس دیا۔ ”اچھا۔”  وہ ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا۔

”آپ نے نانو سے میرے بارے میں کیا کہا ہے؟” اس نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔

”کچھ بھی نہیں!”

”آپ جھوٹ بول رہے ہیں ، آپ نے نانوسے کہا کہ میں نے آپ کو اس گھر سے جانے کے لئے کہا ہے۔”

”کم آن علیزہ ! میں نے ایسا کچھ نہیں کہا!”

اس بار اس نے ایک بار پھر بڑے پر سکون اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔

”آپ نے نانو سے کہا کہ میں یہاں آپ کا رہنا پسند نہیں کرتی۔”

”ہاں یہ میں نے کہا تھا۔” اس کا لہجہ اب بھی پر سکون تھا۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”آپ نے یہ کیوں کہا تھا؟” وہ تیز آواز میں بولی تھی۔

”کیا میں نے غلط کہا ہے؟” اس نے بہت سیدھا سوال کیا گیا تھا۔ وہ چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہی ۔ وہ اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔

”آپ نے نانو کو میرے خلاف کر دیا ہے۔” وہ کتابوں کے شیلف کی طرف جاتے جاتے مڑا تھا۔ ”میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔”

”آپ نے کیا ہے!”

”میں نے جو کچھ بھی کیا ہے، وہ تمہاری خوشی اور convenience (سہولت) کے لئے کیا ہے اور اس میں گرینی کو تمہارے خلاف کر نے کی احمقانہ حرکت شامل نہیں ہے۔” وہ اب کتابیں شیلف پر سے اٹھا رہا تھا۔

”آپ کی وجہ سے نانو مجھ سے ٹھیک سے بات بھی نہیں کر رہیں!” اس بار وہ روہانسی ہو گئی تھی۔

اس نے مڑ کر علیزہ کو دیکھا تھا اور پھر بڑی نرمی سے کہا تھا۔ ”وہ اگر ایسا کر رہی ہیں تو غلط کر رہی ہیں، میں ان سے بات کروں گا۔”

”آپ کو اب ان سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں آپ کو بہت اچھی طرح سے سمجھ چکی ہوں،  You are a crook”

اس بار اس کے ریمارکس پر پہلی بار عمر کے ماتھے پر کچھ بل آئے تھے مگر اس نے کچھ کہا نہیں تھا، صرف خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔

”آپ صرف نانو کو یہ بتائیں کہ میں نے آپ سے یہاں رہنے کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا،نہ ہی میں نے آپ کے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض کیا ہے۔”

وہ اب بھی خاموش تھا۔

<!–nextpage–>

”آپ نانو کو جاکر کہیں کہ میں نے آپ کے یہاں رہنے پر کوئی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔”

”حالانکہ تم میرے یہاں رہنے کو ناپسند کرتی ہو۔”

”میں نے آپ سے ایسا کب کہا۔”

”تم نے کہا نہیں مگرپھر بھی تم میرا یہاں رہنا پسند نہیں کرتی۔”

”آپ غلط کہہ رہے ہیں۔”

”علیزہ میں کوئی بچہ نہیں ہوں اور صحیح غلط تم سے بہت اچھے طریقے سے سمجھ سکتا ہوں۔ تمہیں یاد ہے اس دن جب میں تمہیں پرفیومز دکھا رہا تھا ،اور میں نے اپنا فیورٹ پرفیوم تمہیں دکھایا تو تم نے اسے گرا دیا۔”

علیزہ کا رنگ اڑ گیا تھا۔ ”میں نے جان بوجھ کر پرفیوم نہیں گرایا تھا۔ میرے ہاتھ ….. !”

”علیزہ میں بے وقوف نہیں ہوں،نہ ہی مجھے بے وقوف سمجھو۔” وہ بات کرتے ہوئے بے حد پر سکون تھا۔

”اسی طرح اس دن پلانٹس کی کٹنگ کرتے ہوئے، میں نے تم سے کہاں یہ میرا فیورٹ پلانٹ ہے اور تم نے اس کی سب سے خوبصورت شاخ کاٹ دی۔” اس بار وہ کچھ بول نہ سکی ، عمر واقعی بے وقوف نہیں تھا۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”میں نے بہت پہلے تمہیں بتا دیا تھا کہ میں یہاں تمہاری جگہ لینے نہیں آیا ہوں۔ تھوڑے عرصہ کے لئے آیا ہوں پھر واپس چلا جاؤں گا۔ مگر اس کے باوجود مجھے محسوس ہوا کہ تم میری طرف سے اپنا دل صاف نہیں کر پائیں۔ شاید تمہارے دل میں میری طرف سے کچھ خدشات تھے، اور میں کوشش کے باوجود انہیں ختم نہیں کر پایا۔ اس لئے میں نے بہتر یہی سمجھا کہ یہ جگہ چھوڑ دوں۔ بس اتنی سی بات تھی اور میں نے گرینی سے بھی ان سب باتوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا۔ انہوں نے جب میرے باہر جانے کے فیصلے کے بارے میں بہت اصرار کیا تو میں نے ان سے صرف اتنا کہا کہ تم میرے یہاں رہنے کو پسند نہیں کرتیں۔ اس سے زیادہ میں نے ان سے کچھ نہیں کہا۔”

وہ بہت سنجیدگی سے اسے بتاتا جا رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیاتھا۔ وہ سرخ چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ وہ اب اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔

”پلیز ! آپ واپس آجائیں!”

عمر نے ایک گہری سانس لے کر اسے دیکھا تھا۔” آئی ایم سوری۔”

”علیزہ ! میں یہاں سے ناراض ہو کر نہیں گیا۔ اپنی خوشی سے گیا ہوں اور اکثر آتا جاتا رہوں گا۔”

اس نے نرمی سے کہا۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”پلیز آپ واپس آجائیں……جب تک آپ واپس نہیں آئیں گے نانو کا موڈ ٹھیک نہیں ہوگا۔ آپ سمجھتے نہیں ہیں وہ۔۔۔۔۔”

عمر نے اسے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا وہ بے حد پریشان نظر آرہی تھی۔

”میں دوبارہ کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گی جس سے آپ کو شکایت ہو۔” وہ اس سے نظریں نہیں ملا رہی تھی۔

”علیزہ ! میں واپس نہیں آسکتا۔” اس نے مایوسی سے عمرکو دیکھاتھا۔

”جہاں تک گرینی کی بات ہے تو وہ تم سے بہت محبت کرتی ہیں۔ وہ تم سے ناراض نہیں ہو سکتیں۔”

”ہاں ! وہ تو مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں، مگر پھر بھی یہ گھر میرا نہیں ہے میرا تواب کوئی گھر ہے ہی نہیں۔”

عمر نے اسے اپنے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھتے ہوئے دیکھا تھا اور وہ جان گیا تھا۔ وہ کیا چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ چند لمحوں تک وہ اسے حیران پریشان آنکھوں پر ہاتھ رکھے سسکیاں بھرتے دیکھتا رہا، پھر وہ اس کے قریب آگیا تھا۔

”علیزہ ! کیا ہوا ،رونے والی کیا بات ہے؟”

اس نے بچوں کی طرح اسے چمکارتے ہوئے اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ مگر چپ ہونے کی بجائے وہ یکدم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ وہ ساکت کھڑا اسے دیکھتا رہاتھا پھر اس نے کندھوں سے پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھا دیاتھا۔

”ٹھیک ہے میں واپس آجاتا ہوں لیکن تم یہ رونا بند کردو۔”

<!–nextpage–>

علیزہ نے اسے کہتے سناتھا مگر وہ خود سمجھ نہیں پارہی تھی کہ وہ اپنے آنسوؤں پر قابو کیوں نہیں پا رہی اسے نہیں پتاوہ کتنی دیر روتی رہی تھی۔اس نے دوبارہ عمر کی آواز نہیں سنی تھی۔ کافی دیر کے بعد جب اس کے آنسوتھمے تو اس نے آہستہ سے چہرہ اوپر اٹھایا۔ اس کے بالکل سامنے ہی عمر ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اس وقت اس کا چہرہ کیا منظر پیش کر رہا ہو گا۔ سو جی ہو ئی آنکھیں ، گیلا چہرہ، سرخ ناک اور اس میں سے بہتا ہو ا پانی۔

اس سے زیادہ بری وہ اور کسی حالت میں بھی نہیں لگ سکتی تھی۔ اس نے سر نیچے جھکا کر ٹی شرٹ کی آستینوں سے چہرہ صاف کرنے کی کوشش کی پھر نامحسوس انداز میں ٹی شرٹ کے کونے سے ناک سے بہتا ہوا پانی صاف کرنا چاہا تھا، اور اسی وقت ٹشو کا ڈبہ اس کے سامنے آ گیا۔ کچھ جھجک کے بعد اس نے دو ٹشوز نکال لئے تھے۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”پانی چاہئے ؟”

بہت نرم آواز میں اس سے پوچھا گیا۔

اور اس کا سر اثبات میں ہل گیا۔ جب تک اس نے ٹشو سے اپنے چہرے کو خشک کیا وہ ایک گلاس میں پانی لے کر آگیا۔ اس نے پانی پینے کے بعد اسی خاموشی سے گلا س واپس اسے تھما دیا تھا۔

”رونا کس بات پر آیا تھا؟”وہ اب اس کے پاس بیٹھ کر اس سے پوچھ رہا تھا۔

علیزہ کو اب شرمندگی محسوس ہونے لگی تھی۔ اسے رونا نہیں چاہئے تھاکم از کم عمر کے سامنے تو بالکل بھی نہیں۔

”کراچی میں کوئی بات ہوئی ہے کیا؟”

علیزہ نے خوف کے عالم میں سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ بلا کا قیافہ شناس تھا۔ وہ بڑے غور سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ علیزہ کا دل چاہا اسے بتا دے کہ اس کے پاپا نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا مگر وہ ایک بار پھر رک گئی۔ اس کی آنکھیں ایک بار پھر دھندلانے لگی تھیں۔اس بار عمر نے بڑی نرمی سے اپنی انگلیوں سے آنسو پونچھ دیے تھے۔

”رونے سے کیا ہو گا علیزہ ! زندگی میں تو بہت کچھ فیس کرنا پڑ تا ہے۔ ہر بار آنسو پرابلم حل نہیں کرتے۔”

اس کا خیا ل تھا۔ عمر اس سے پوچھے گا کہ وہاں ایسا کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ اتنی دل گرفتہ تھی، مگر عمر نے مزید کوئی سوال نہیں کیاتھا۔ اس کے بجائے نرم لہجے میں ایک نصیحت کی گئی تھی۔

”چلو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں۔ میرے پاس جب بھی روپے آئے،میں تمہیں ایک گھر ضرور گفٹ کروں گا۔” علیزہ نے حیرانی سے عمر کو دیکھاتھا۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”آئی ایم سیریس!” وہ علیزہ کی حیرانی کو بھانپ گیاتھا۔

”مجھے گھر نہیں چاہئے۔”

”تو پھر کیا چاہئے ؟”

”کچھ بھی نہیں!”

وہ ابھی بھی اتنی ہی ملول نظر آرہی تھی۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔

”آپ پھر یہاں رہیں گے نا!”

اس نے اچا نک سر اٹھا کر عمر سے پوچھاتھا۔

”ہاں ! رہوں گا۔”

عمر کو اس کے چہرے پر کچھ اطمینان نظر آیاتھا۔وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔

”پھر یہ چیزیں واپس رکھ دیں۔”

اس نے بیگ کی طرف اشارہ کیا۔

”میں رکھ دوں گا لیکن آج تو مجھے جانا ہی ہو گا کیونکہ میرا باقی سامان تو وہیں ہے۔”

اس نے کہاتھا۔

وہ اٹھ کر دوبارہ اپنے بیگ کی طرف چلا گیاتھا۔ اب وہ بیگ میں سے چیزیں واپس نکال رہا تھا۔ علیزہ نے کچھ مطمئن ہو کر اسے دیکھا تھا اور کمرے سے نکلنے کے لئے مڑ گئی۔ دروازہ کے ہینڈل پر  ہاتھ رکھتے ہوئے اس کی نظر کمرے کے کونے میں پڑی ہوئی ایک چیز پر پڑی تھی اور وہ ٹھٹھک کر رہ گئی۔

<!–nextpage–>

باب 13

”عمر کے بارے میں کیا بات کر رہے تھے؟”

وہ بھی کچھ فکر مند ہو گئی تھی۔ نانو اب بہت الجھی ہو ئی لگ رہی تھیں۔

”پتا نہیں اب کیا پرابلم ہے؟”

نانو بڑبڑائی تھیں۔

”انکل جہانگیر کل پاکستان آئیں گے؟”

اس نے اس بار سوال بدل دیاتھا۔

”نہیں ! پاکستان تو وہ دو دن پہلے ہی آچکا ہے!”

”انہوں نے آپ کو پہلے انفارم کیوں نہیں کیا؟”

”پتہ نہیں !”

”ملنے بھی نہیں آئے؟”

”اب میں کیا کر سکتی ہوں۔ اس کی مرضی ہے۔”

”پہلے تو سیدھا یہیں آیا کرتے تھے۔”

”پہلے تو بات ہی اور تھی۔ پہلے تو تمہارے نانا کی وجہ سے وہ سیدھا یہیں آیا کرتا تھا۔ اب جب سے ان کی ڈیتھ ہوئی ہے جہانگیر بہت لاپرواہ ہو گیا ہے۔”

”انکل لاہور میں ہی ہیں؟”

”پتا نہیں۔ یہ میں نے نہیں پوچھا۔ ہو سکتا ہے، لاہور میں ہی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ابھی کراچی میں ہو۔”

”کل کس وقت آرہے ہیں؟”

”کہہ رہا تھا کہ شام کو آئے گا۔”

”آپ نے ان سے پوچھا کہ یہاں کتنے دن رہیں گے؟”

”تم بے وقوف ہو علیزہ ! بھلا میں یہ کیسے پوچھ سکتی تھی۔ وہ سوچتا ماں کو پہلے ہی اس کی واپسی کی فکر پڑ گئی ہے۔”

علیزہ کا چہرہ خفت سے تھوڑا سرخ ہو گیاتھا۔

”نہیں ، میرا یہ مطلب نہیں تھا ، میں تو اس لئے پوچھنا چاہ رہی تھی تاکہ ان کا کمرہ اسی طرح سیٹ کر سکوں۔رہیں گے تو یہیں نا؟”

”ہاں، کہہ تو یہی رہا ہے کہ یہیں رہے گا مجھ سے کہہ رہا تھا کہ عمر کو اس کی آمد کے بارے میں کچھ نہ بتاؤں۔ میں نے کہا کہ عمر تو یہاں ہے ہی نہیں۔ کہنے لگا کہ پھر بھی اسے میرے آنے کی اطلاع نہیں ہونی چاہئے۔”

”انکل جہانگیر نے ایسا کیوں کہا؟”

علیزہ کچھ حیران ہوئی تھی۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”آخر عمر سے وہ اپنی آمد کیوں چھپانا چاہ رہے ہیں؟”

”یہ تو میری بھی سمجھ میں نہیں آیا۔”

”پتا نہیں انکل جہانگیر اور عمر کا اتنا جھگڑا کیوں ہوتا رہتا ہے؟”

”دونوں غصہ ور ہیں۔ دونوں ہی اپنی منوانے والے ہیں۔ پھر جھگڑا نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا۔ بہرحال تم جہانگیر کے لئے بھی کمرہ تیار کروا دو۔”

”نانو انکل اکیلے آرہے ہیں؟”

”ہاں ! اکیلا ہی آ رہا ہے۔”

نانو اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی تھیں۔

علیزہ کچھ دیر خاموشی سے وہاں بیٹھی کچھ سوچتی رہی پھر اٹھ کر عمر کے کمرے کی طرف آگئی تھی۔ کمرے میں عمر کے کلون کی مہک ابھی تک موجود تھی۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے اسٹڈی ٹیبل کی طرف گئی تھی، وہاں عمر کا وہ اسکیچ موجود نہیں تھاجو اس نے کل وہاں رکھا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عمر وہ اسکیچ دیکھ چکاتھا۔ اسے نامعلوم سی خوشی ہوئی تھی۔ وہ واپس مڑنے کو تھی جب اس کی نظر اسٹڈی ٹیبل کے پاس پڑی ویسٹ پیپر باسکٹ پر پڑی تھی۔ اس میں صرف ایک مڑا تڑا کاغذ پڑا ہوا تھا اور وہ اس کاغذ کو ہاتھ لگائے بغیر بھی جانتی تھی کہ وہ کونسا کاغذ تھا۔

٭٭٭

<!–nextpage–>

انکل جہانگیر دوسرے دن شام کو پہنچ گئے تھے۔ ان کا موڈ واقعی اس بار کچھ اور ہی طرح کا تھا۔ ہر بار جب بھی آتے تھے تو بہت خوشگوار موڈ میں ہوتے تھے۔ علیزہ سے کافی گرم جوشی سے حال احوال پوچھا کرتے تھے، مگر اس بار وہ بہت سنجیدہ تھے۔ علیزہ سے ان کی رسمی سی سلام دعا ہوئی تھی اس کے بعد وہ نانو کے ساتھ ان کے کمرے میں چلے گئے تھے۔ وہاں ان دونوں کے درمیان کیا کیا باتیں ہوئی تھیں ، وہ نہیں جانتی تھی اور نہ ہی اس نے جاننے کی کوشش ہی کی۔ اس نے بس ملازم کے ہاتھ چائے اور کچھ کھا نے کی چیزیں اندر بھجوادیں تھیں۔

ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد انکل نانو کے ساتھ باہر لاؤنج میں نکل کر آگئے تھے۔علیزہ نے نانو کے چہرے پر بھی ٹینشن دیکھی تھی۔ بہت عرصہ کے بعد وہ اس طرح پریشان نظر آرہی تھیں۔ لاؤنج میں بیٹھنے کے تھوڑی دیر بعد عمر کا فون آگیا تھا۔ وہ ائیرپورٹ پر تھا اور ڈرائیور بھیجنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ نانو نے اس کا فون ریسیو کیا تھا اور ڈرائیور کو بھجوا دیا تھا۔

ایک گھنٹے کے بعد پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز سنائی دی تھی۔ علیزہ نے انکل کے چہرے پر نظر دوڑائی تھی، وہاں تناؤ میں اضافہ ہو گیا تھا۔ پچھلے ایک گھنٹہ سے وہ نانو اور انکل جہانگیر کی باتیں سن رہی تھی، اور وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھے فیملی ممبرز کے بارے میں معمول کی گفتگو میں مصروف  تھے۔ مگر ان کی گفتگو میں گرم جوشی یاخوشی نہیں تھی یوں لگ رہا تھا جیسے وہ صرف وقت گزارنے کے لئے باتیں کررہے تھے۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

علیزہ نے ایک گہری سانس لی تھی ۔ لاؤنج کا دروازہ کھلا اور عمر اپنی ہی رو میں اندر آیا تھا۔ پہلا قدم اندر رکھتے ہی وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ علیزہ نے اس کے چہرے پر موجود ہلکی سی مسکراہٹ کو غائب ہوتے دیکھا۔ وہ انکل جہانگیر کو دیکھ چکا تھا اور علیزہ نے اس سے پہلے اس کے چہرے کو کبھی اتنا بے تاثر نہیں دیکھا تھا۔ اس نے انکل جہانگیر کو ایک نظر دیکھا اور پھر گہری نظروں سے نانو کو دیکھا تھا، اور اس وقت علیزہ کو اس کی آنکھوں میں شکوہ نظر آیاتھا۔

دروازہ بند کر کے وہ اب آگے بڑھ آیا تھا۔ السلام و علیکم کے دو لفظ کہنے کے بعد وہ وہاں رکے یا کسی کو دیکھے بغیر لاؤنج سے گزر گیاتھا۔ انکل جہانگیر نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔ اس کے چہرے پر بہت عجیب تاثرات تھے۔

”علیزہ ! تم جاؤ اور اسے کہو کہ کپڑے بدل کر کھانے کے لئے آ جائے ، کھانا تیار ہے۔”

نانو نے اسی لمحے علیزہ کو مخاطب کیا تھا۔وہ ایک لمحے کے لئے جھجکی اور پھراٹھ کھڑی ہوئی۔

عمر کے بیڈ روم کے دروازے پر اسے دو تین بار دستک دینی پڑی تھی پھر وہ رک گئی۔ ہو سکتا ہے وہ پہلے ہی ڈریسنگ میں کپڑے تبدیل کر رہا ہو۔ اس نے سوچاتھا۔ چند منٹ وہ وہیں دروازہ کے باہر کھڑی انتظار کرتی رہی پھر اس نے ایک بار پھر دروازے پر دستک دی تھی۔ اس بار اسے انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔ فوراً ہی اسے عمر کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ عمر اب سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا اور موبائل پر کوئی نمبر ڈائل کرنے میں مصروف تھا۔ اسے دیکھ کر رک گیا تھا۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”نانو کہہ رہی ہیں کہ آپ کھانے کے لئے آجائیں!”

علیزہ نے نانو کا پیغا م اسے دیاتھا۔

”پاپا کب آئے ہیں؟”

اس نے علیزہ کی بات کے جواب میں سوال کیا تھا۔

”انکل آج شام کو آئے ہیں۔”

” اور تم لوگوں کو پہلے سے پاپا کے آنے کا پتا تھا؟” اس بار اس کا لہجہ بہت تیکھا تھا۔

”کل انکل نے فون کر کے نانو کو اپنے آنے کا بتایا تھا۔”

”صبح جب میں نے گرینی کو فون کیا تھا تو انہوں نے مجھ سے پاپا کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔”

”انکل نے نانو کو منع کر دیا تھا کہ وہ ان کے آنے کے بارے میں آپ کو کچھ بھی نہ بتائیں۔”

وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا تھا۔ یوں جیسے اس کی بات کو جانچ رہا ہو۔

”ٹھیک ہے تم جاؤ، میں آ رہا ہوں۔”

اس نے ایک بار پھر موبائل پر کال ملانی شروع کر دی تھی۔ وہ خاموشی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔

لاؤنج میں آکر اس نے نانو کو اس کے آنے کے بارے میں بتا دیاتھا۔ ملازم نے چند منٹوں بعد انہیں کھانا لگنے کی اطلاع دی تھی اور وہ تینوں اٹھ کر ڈائننگ روم میں آگئے تھے۔

ان کے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھتے ہی عمر ڈائننگ روم میں آگیا تھا۔ کچھ کہے بغیر وہ ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔

ملازم نے سوپ سرو کرنا شروع کر دیاتھا۔

”نہیں، مجھے سو پ نہیں چاہئے۔ ”

اس نے سوپ کا پیالہ ایک طرف کرتے ہوئے چاولوں کی ڈش اپنی طرف کھینچ لی تھی۔

<!–nextpage–>

سب نے کھانا شروع کر دیا تھا۔ نانو باری باری انکل جہانگیر اور عمر کو ڈشز سرو کر رہی تھیں۔ عمر سر جھکائے ہوئے ایک لفظ کہے بغیر پوری سنجیدگی سے کھانا کھاتا رہا۔اس نے ایک بار بھی انکل کی طرف دیکھنے یا انہیں مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ دوسری طرف انکل جہانگیر بھی بہت خاموشی سے کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ علیزہ کھانا کھاتے ہوئے باری باری انکل جہانگیر اور عمر پر نظر دوڑاتی رہی۔

عمر نے سویٹ ڈش کھانے کے بعد پلیٹ کھسکا کر نیپکن اٹھا لیا تھا، اور وہ منہ پونچھ رہا تھا۔ جب نانو نے اسے مخاطب کیا تھا۔

”عمر ! اب تم میرے کمرے میں چلنا مجھے تم سے اور جہانگیر سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔”

علیزہ نے یکد م اس کے چہرے پر تناؤ دیکھا۔

”مجھے اس وقت کسی سے کچھ بھی بات نہیں کرنا ہے میں بہت تھک چکا ہوں اور جو واحد چیز میں اس وقت چاہتا ہوں وہ نیند ہے۔ جہاں تک آپ کی بات سننے کا تعلق ہے تو وہ میں صبح سن لو ں گا اور اس کے علاوہ مجھے کسی دوسرے کی نہ تو کوئی بات سننا ہے اور نہ ہی کسی سے کوئی بات کرنا ہے۔”

وہ کرسی پیچھے کھسکا کر کھڑا ہو گیا تھا۔ علیزہ جان گئی تھی کہ اس کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ اس نے انکل جہانگیر کے ماتھے پر بل پڑتے دیکھے تھے ۔انہوں نے بھی اپنی پلیٹ پیچھے سر کا دی تھی۔

”کیوں، مجھ سے بات کرتے ہوئے تمہیں کیا تکلیف ہوتی ہے؟”

علیزہ نے انہیں تیز آواز میں کہتے ہوئے سناتھا۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”مجھے آپ سے جتنی باتیں کرنا تھیں ، میں کر چکا ہوں۔مزید باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔”

عمر نے پہلی بار ان کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔

”مگر مجھے تم سے بہت سی باتیں ابھی کرنی ہیں یہ تم اچھی طرح سن لو۔”

”تم اس طرح سے فرار حاصل نہیں کر سکتے۔”

اس بار انکل جہانگیر نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا تھا۔ نانو نے انکل جہانگیر کے کندھے کو دبا یاتھا۔

”کیا ہو گیا ہے جہانگیر ؟ کیوں اس طرح سے چلا رہے ہو؟ آرام سے بات کرو ، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”

”نہیں گرینی ! انہیں چلانے دیں ۔ پچھلے تیس سالوں میں انہوں نے چلانے کے علاوہ اور کیا ہی کیا ہے۔”

”عمر ! تم بھی تمیز سے بات کرو ، وہ باپ ہے تمہارا۔”

اس بار نانو نے عمر کو جھڑکا تھا۔

”یہ باپ نہیں ہیں ،traitor(غدار) ہیں۔ ان کے نزدیک ہر چیز بکنے والی شے ہے۔ چاہے وہ ویلیوز ہوں یا پھر اولاد۔”

اس نے تلخی سے انکل جہانگیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاتھا۔

”آپ سن رہی ہیں اس کی باتیں!”

انکل جہانگیر نے ترشی سے نانو سے کہاتھا۔

”آپ نے ہی خواہش کی تھی باتیں سننے اور سنانے کی۔ یہ میری خواہش نہیں تھی۔”

”عمر تم بیٹھ جاؤ!”

نانو نے عمرسے کہاتھا۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”مجھے بیٹھنا ہی نہیں ہے ۔جب مجھے کوئی بات ہی نہیں کرنا ہے تو پھرمجھے یہاں بیٹھ کرکیا کرنا ہے۔”

وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا تھا۔ انکل جہانگیرہونٹ بھینچے ہوئے اسے جاتا دیکھتے رہے تھے۔

”میں نے آپ سے کہا تھا نہ کہ اس کا دماغ خراب ہو چکا ہے۔”

انہوں نے اس کے جاتے ہی نانو سے کہا تھا۔

”اس وقت اسے سونے دو۔ وہ تھکا ہوا ہے۔ اس لئے زیادہ تلخ ہو گیا ہے۔ تم صبح دوبارہ اس سے بات کرنے کی کوشش کرنا اور کچھ نرمی سے بات کرنا۔ وہ کوئی چھوٹا سا بچہ نہیں ہے، جوان ہے انڈیپینڈنٹ ہے، اور اس طرح وہ کبھی بات نہیں سنے گا۔”

نانو انکل جہانگیر کو سمجھارہی تھیں۔

”آپ کا کیا خیا ل ہے کہ میں نے اس سے نرمی سے بات نہیں کی ہے، میں اس سے ہر طرح سے بات کر چکا ہوں،مگر وہ اپنی بات پر جما ہوا ہے۔ اسے احساس ہی نہیں ہے کہ اس کی ضد میرے لئے کتنی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔”

وہ تیز آواز میں نانو سے بات کر رہے تھے جو بڑی خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھیں۔

”ٹھیک ہے فی الحال ابھی تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ وہ سونے چلا گیا ہے۔ تم بھی جا کر سو جاؤ۔ صبح دیکھوں گی کہ میں تمہارے لئے کیا کر سکتی ہوں؟”

نانو نے انکل جہانگیر کو دلاسا دیتے ہوئے کہا، اور وہ انکل جہانگیر کو اپنے ساتھ لے کر ٹیبل سے اٹھ گئیں۔

علیزہ چپ چاپ وہیں بیٹھی انکل جہانگیر کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کر تی رہی۔ ملازم ٹیبل سے کھانے کے برتن اٹھا نے لگا۔ وہ سوچتی رہی کہ اس بار عمر اور انکل کے درمیان وجہ تنازعہ کیا ہو سکتی ہے۔

ان دونوں کے درمیان ہونے والا یہ پہلا جھگڑا نہیں تھا۔ علیزہ کو ایسے بہت سے مواقع یاد تھے، جب ان دونوں کے درمیان اختلافات ہوتے رہے تھے۔ مگر اس بار معاملہ یقیناً زیادہ سیریس تھا۔

٭٭٭

<!–nextpage–>

اگلے دن وہ یونیورسٹی چلی گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی واپسی تک انکل جہانگیر اور عمر کے درمیان جو بات ہونا ہو گی، ہو چکی ہو گی، اور گھر کا اعصاب شکن ماحول بدل چکا ہو گا۔ مگر سہ پہر کو واپسی پر اسے پتہ چلا تھاکہ عمر صبح ہی کہیں چلا گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا۔ انکل جہانگیر کا پارہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا اور نانو کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔

عمر شام کے وقت واپس آیا تھا اور اس بار انکل جہانگیر نے وقت ضائع کئے بغیر اس سے بات کرنی شروع کر دی۔ وہ لاؤنج میں ہی بیٹھے ہوئے تھے اور علیزہ چند منٹ پہلے ہی انہیں چائے دیکر آئی تھی۔

”میں آپ کو کل بھی بتا چکا ہوں کہ مجھے آپ سے کوئی بھی بات نہیں کرنی۔”

عمر نے لاؤنج میں کھڑے کھڑے ہاتھ اٹھا کر کہاتھا۔

”عمر ! اس طرح……!”

عمر نے نانو کو بات بھی مکمل نہ کر نے دی تھی۔

”گرینی ! میں یہاں اس لئے آیا ہوں تاکہ کچھ دن سکون سے گزار سکوں۔اگر یہ ممکن نہیں ہے تو پھر میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔”

یہ کہہ کر وہ لاؤنج سے نکل گیا نانو نے اسے آواز دی تھی مگر اس نے ان کی آواز کو نظر انداز کر دیا تھا۔

”علیزہ ! جاؤ اس سے جا کر کہو کہ آکر چائے تو پی لے۔”

نانو نے علیزہ سے کہا۔ وہ اٹھ کر عمر کے کمرے کی طرف آگئی تھی۔ دستک کی آواز سنتے ہی اندر سے عمر نے آوازدی تھی۔

علیزہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی تھی۔ وہ اپنے گلے میں بندھی ہوئی ٹائی کھول رہا تھا۔ علیزہ نے نانو کا پیغام اسے پہنچا دیا تھا۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”نہیں، مجھے چائے نہیں پینی!”

اس نے بڑی ترشی سے کہا۔

علیزہ نے اس کے چہرے پر تھکن کے آثا ر دیکھے تھے۔ اس کی آنکھوں میں سرخی تھی۔ شاید وہ رات کو دیر سے سویا تھا۔ علیزہ کو بے اختیار اس پر ترس آگیا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ انکل جہانگیر کو یہاں سے واپس بھیج دے۔

”اگر وہ بات نہیں کرنا چاہتا تو نانو اور انکل اسے کیوں مجبور کر رہے ہیں؟”

اس نے خود ہی جانب داری سے سوچاتھا۔

”میں چائے یہاں لے آؤں ؟”

علیزہ نے ہمدردی سے اس سے پوچھاتھا۔

”نہیں ! ضرورت نہیں ہے !”

اس نے بڑی رکھائی سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اسی خاموشی سے کمرے سے باہر نکل آئی۔

”وہ چائے پینا ہی نہیں چاہتا!”

اس نے لاؤنج میں آکر کہاتھا۔

”وہ میرا سامنا کرنا نہیں چاہتا، آپ دیکھ رہی ہیں کہ وہ میرے ساتھ کیا کر رہا ہے۔”

اس نے انکل جہانگیر کا چہرہ سرخ ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔

”علیزہ ! تم اس سے جاکر کہو کہ میں بلا رہی ہوں۔”

نانو نے انکل جہانگیر کو جواب دینے کے بجائے اس سے کہاتھا۔ وہ ایک بار پھر واپس پلٹ گئی تھی۔ اسے اپنے پیچھے انکل جہانگیر کی آواز سنائی دی تھی وہ ایک بار پھر نانو سے کچھ کہہ رہے تھے۔

<!–nextpage–>

عمر اس بار اس کے پیغام پر بھڑک اٹھاتھا۔

”میں ایک بار بتا چکا ہوں کہ مجھے چائے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی مجھے باہر آنا ہے۔ تم جاکر گرینی سے کہہ دو اور پلیز اب دوبارہ یہاں کوئی پیغام لے کر مت آنا۔ بار بار مجھے ڈسٹرب مت کرو۔”

اس نے خاصی تلخی سے علیزہ سے کہا تھا۔ اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ عمر نے کبھی اس طرح اسے جھڑکا ہو۔ وہ ایک بار پھر پلٹی تھی اور تب ہی ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر انکل جہانگیر اندر آگئے تھے۔

”آپ کو میرے کمرے میں اس طرح داخل ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔”

اس نے عمر کو تیز آواز میں کہتے ہوئے سناتھا ، علیزہ کی سمجھ میں نہیں ایا کہ وہ کیا کرے ۔ وہاں ٹھہرے یا چلی جائے۔

”یہ کمرہ میرے باپ کا ہے!”

انکل جہانگیر نے جواباً کہاتھا۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”لیکن آپ کا نہیں ہے۔ آپ یہاں سے چلے جائیں۔”

عمر نے ترشی سے ان سے کہا تھا۔

”میں نے اپنی زندگی میں تم جیسا خود غرض، خود پسند اور غیر ذمہ دار شخص نہیں دیکھا۔”

انکل نے اس کی طرف انگلی سے اشارہ کیا تھا۔

”ہاں ! میں خود غرض ، خود پسند  اور غیر ذمہ دار ہوں……کیونکہ آپ کا ہی بیٹا ہوں۔”

عمر نے انہیں اسی لہجے میں جواب دیا تھا۔ علیزہ کو انکل جہانگیر کے پیچھے دروازے میں نانو نظر آئی تھیں۔

”میں تم سے آخری بار صاف صاف بات کرنا چاہتا ہوں۔”

”مجھے جتنی بات کرنی تھی، کر چکا ہوں اب اور کوئی بات کرنا نہیں چاہتا۔ آپ کو پہلے بھی میں انکار کر چکا ہوں اب بھی انکار ہی کرتا ہوں اور میرا جواب آئندہ بھی یہی ہو گا۔ اب آپ میرا پیچھا چھوڑ دیں اور یہاں سے چلے جائیں۔”

”’عمر تمہیں کیا ہو گیا۔ اس طرح بی ہیو کیوں کررہے ہو؟”

اس بار نانو آگے آئی تھیں۔

”میں بالکل ٹھیک بی ہیو کر رہا ہوں ، آپ نہیں جانتیں کہ یہ میرے ساتھ کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔”

”میں جانتی ہوں اور میرا خیال ہے کہ جہانگیر جو کہہ رہا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ۔”

نانو اس با ر دھیمے لہجہ میں بولی تھیں۔

عمر حیران نظر آیا۔

”آپ جانتی ہیں اور پھر بھی آپ کو اس بات میں کوئی حرج نظر نہیں آرہا۔”

”عمر ! تمہیں شادی تو کرنا ہی ہے تو پھر جہانگیر کی مرضی سے کرنے میں کیا حرج ہے۔”

علیزہ نے ایک شاک کے عالم میں نانو کی طرف دیکھا تھا مگر وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھیں۔

”آپ کے بیٹے نے ساری زندگی دوسرے لوگوں کو اپنے فائدہ کے لئے استعمال کیا ہے اور گرینی! میں ان لوگوں کی لسٹ میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔”

<!–nextpage–>

”وہ تمہیں کیوں استعمال کرے گا تم تو اس کے بیٹے ہو۔ ہر باپ اپنی اولاد کی شادی کے بارے میں سوچتا ہے۔ ہر باپ اپنی اولاد کی خوشی چاہتا ہے۔”

”ہر باپ نہیں گرینی ! ہر باپ نہیں۔  کچھ باپ آپ کے بیٹے جیسے بھی ہوتے ہیں جو صرف اپنے بارے ہی میں سوچتے ہیں۔ صرف اپنی خوشی کا ہی خیال رکھتے ہیں۔یہ جس سیاستدان کی بیٹی سے میری شادی کرنا چاہتے ہیں، میں اس سے شادی کرنا نہیں چاہتا۔ اگر بات خوشی کی ہی ہے تو میں وہاں شادی کرکے خوش نہیں رہ سکتا۔ یہ میری خوشی کی خاطر مجھے مجبور نہ کریں مگر گرینی! بات خوشی کی نہیں ہے۔ بات قیمت کی ہے۔ انہیں میری بہت اچھی قیمت مل رہی ہے اور یہ مجھے بیچ دینا چاہتے ہیں۔”

”عمر ! تم غلط کہہ رہے ہو۔”

نانو نے اس کی بات کے جواب میں کہاتھا۔

”میں غلط کہہ رہا ہوں؟”

عمر استہزائیہ انداز میں ہنساتھا۔

”گرینی ! میں غلط نہیں کہہ رہا اور آپ اپنے بیٹے کو مجھ سے زیادہ نہیں جانتیں۔”

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”عمر ! تمہیں کس بات پر اعتراض ہے۔ جہانگیر بتا رہا تھا کہ وہ لڑکی خوبصورت ہے، تعلیم یافتہ ہے۔  اس کا باپ منسٹر ہے، اس ملک کے چند نامی گرامی خاندانوں میں سے ایک ہے۔ تمہیں اور کیا چاہئے ہے ، اس لڑکی سے شادی کر کے تمہارا اپنا کیرئیر بن جائے گا۔”

”مجھے کیرئیر نہیں بنانا ہے۔ مجھے کسی نامی گرامی خاندان کا حصہ نہیں بننا ہے۔ مجھے صرف آزادی چاہئے آدھی زندگی باپ کے اشاروں پر ناچتے ہوئے گزار دی باقی کی زندگی بیوی اور اس کے خاندان کے اشاروں پر ناچتے ہوئے نہیں گزارنا چاہتا۔ جس لڑکی کی خوبصورتی اور تعلیم کے بارے میں یہ آپ کو بتا رہے ہیں اس کے بارے میں ، میں سب کچھ جانتا ہوں۔ اس کے کتنے بوائے فرینڈز ہیں اور اس کا باپ اسے مجھ سے کیوں بیاہنا چاہتا ہے میں یہ بھی جانتا ہوں۔”

”عمر ! فضول باتیں مت کرو۔ تمہارا باپ تمہار ے لئے کسی برے کیریکٹر کی لڑکی کا انتخاب کیوں کرے گا۔ تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔”

”سامنے کھڑے ہیں یہ آپ کے، اس لڑکی کے بارے میں مجھ سے بھی زیادہ جانتے ہوں گے ، آپ ان ہی سے پوچھ لیں۔ مجھ پر تو آپ کو یقین ہی نہیں ہے تو ان سے پوچھیں کہ وہ کتنی باکردار لڑکی ہے۔”

اس نے تلخ لہجہ میں کہتے ہوئے باپ کی طرف اشارہ کیاتھا۔

”تم کتنے باکردار ہو؟”

جہانگیر نے سرد لہجے میں اس سے پوچھا۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”اگر تم اس لڑکی کے بارے میں سب کچھ جانتے ہو تو میں بھی تمہارے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔”

”آپ مجھ سے باکردار ہونے کے بارے میں سوال کیسے کر سکتے ہیں ، آپ تو یہ سوال کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ میرا کردار اچھا نہیں ہے تو اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ فارن آفس کے ایک چپڑاسی کے سامنے بھی آپ کا نام لیا جائے گا۔ تو وہ آپ کا کریکٹر سر ٹیفکیٹ پیش کر دے گا۔”

وہ اب آپے سے بالکل باہر ہو چکا تھا۔

”تم جس ماں کے بیٹے ہو تم سے میں یہی سب کچھ توقع کر سکتا ہوں۔”

انکل جہانگیر اب بپھر اٹھے تھے۔

<!–nextpage–>

”ماں کے بارے میں ایک لفظ نہیں… ایک لفظ نہیں…… جس عورت سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے اس کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے آپ۔ میں نے تین سال تک فارن سروس میں رہ کر آپ کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ میں نے اپنے ضمیر کو بالکل سلا دیا، آپ نے جس طرح چاہا، مجھے استعمال کیا۔ آپ کی وجہ سے میرا کیرئیر خراب ہوا۔ میرا سروس ریکارڈ برا رہا لیکن میں نے وہی کیا جو آپ نے کہا۔ مگر اب نہیں…… ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور آپ کے نزدیک میری حیثیت ایک ربڑ سٹیمپ سے زیادہ نہیں ہے۔ میرے وجود کو استعمال کر کے آپ اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کر سکتے۔ اب میں وہی کروں گا جو میں چاہوں گا۔ کچھ بھی آپ کی مرضی کے مطابق نہیں کروں گا۔”

”کیاکیا ہے تم نے میرے لئے؟”

”کیا نہیں کیا میں نے آپ کے لئے۔ آپ نے تین سال تک مجھے استعمال کیا ہے۔”

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

” تم نے میرے لئے کچھ کر کے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے۔ تم جانتے ہو کہ جس جگہ تمہاری پوسٹنگ ہوئی ہے وہاں تم جیسے جونئیر آفیسر کی پوسٹنگ میری مدد کے بغیر کیسے ہو سکتی تھی۔ جو سٹارٹ میں نے تمہیں تمہاری سروس میں دیا، وہ بہت کم لوگوں کو ملتا ہے مگر تمہیں میرا کوئی احسان یاد ہی نہیں ہے۔”

”آپ نے میری پوسٹنگ اس لئے وہاں کروائی تاکہ آپ اس سیٹ کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکیں۔ آپ مجھے فارن سروس میں لے کر ہی اس لئے آئے تھے تاکہ مجھے استعمال کر کے اپنے  لئے کچھ اور فائدہ حاصل کر سکیں۔”

”تمہاری اس ضد کی وجہ سے جانتے ہو کہ مجھے کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے؟”

اس بار ان کا لہجہ قدرے نرم تھا۔

”میری بلا سے ، آپ کو کیا نقصان پہنچتا ہے اور کتنا نقصان پہنچتا ہے۔ یہ آپ کے سوچنے کی باتیں ہیں۔میری نہیں۔” وہ ابھی بھی اتنا ہی تلخ تھا۔

”تم اس لڑکی سے شادی نہیں کرو گے؟”

”نہیں ، میں کسی بھی قیمت پر شادی نہیں کروں گا۔”

”جانتے ہو اس لڑکی سے شادی کر کے تم کہاں پہنچ سکتے ہو؟”

”آپ میرا ہمدردبننے کی کوشش مت کریں میں اس سے شادی کر کے کہیں نہیں پہنچوں گا۔ ہاں اپ کے سارے پرابلمز حل ہو جائیں گے۔ سروس میں آپ کو دو سال کی ایکس ٹینشن مل جائے گی آپ کے خلاف چلنے والی انکوائریز کی رپورٹس غائب ہو جائیں گی۔ ایمبیسی کے فنڈز میں کیا جانے والا بلنڈر گول ہو جائے گا اور مستقبل کے لئے جو پرمٹ اور کوٹے آپ کو چاہئیں وہ بھی آپ کو مل جائیں گے۔ مگر مجھے اب آپ کے لئے بلینک چیک نہیں بننا۔”

”تم اس سب کے لئے بہت پچھتاؤ گے۔”

”میں پہلے ہی بہت پچھتا چکا ہوں اور اب اور نہیں پچھتاؤں گا۔”

”میں تمہیں آسمان پر لے جانا چاہتا ہوں اور تم ایک گٹر کے کیڑے بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہو۔”

”ہاں ! آپ مجھے آسمان پر لے جانا چاہتے ہیں لیکن میرے گلے میں پھند ہ ڈال کر مجھے اوپر اٹھانا چاہتے ہیں۔”

”میں جانتا ہوں میرے خلاف یہ سب کچھ تمہارے دماغ میں ڈالنے والا کون ہے۔ میں اس عورت کو دیکھ لوں گا۔”

جہانگیر نے  زہریلے لہجہ میں کہاتھا۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”وہ عورت میری ماں ہے ، اور میں اس سے پچھلے چھ سال سے نہیں ملا، اور آپ کو جاننے کے لئے مجھے کسی سے کچھ سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بغیر ہی میں آپ کو بہت اچھی طرح سمجھ چکا ہوں۔”

”تمہیں یہ جو بولنا آگیا ہے تو صرف میری وجہ ہے۔ میرے نام، میری مدد کے بغیر تم سے کوئی ہاتھ ملانا بھی پسند نہ کرے گا۔”

”آپ کا نام میرے لئے کسی فخر کا باعث نہیں ہے۔ آپ اپنی ریپیوٹیشن بہت اچھی طرح جانتے ہیں، اورایسی ریپیو ٹیشن والے شخص کا حوالہ دینا بہت بڑی حماقت ہے ، اور میں ایسی حماقت نہیں کرتا۔ عمر کو جہانگیر جیسے لاحقہ کے بغیر بھی بہت سے لوگ جانتے ہیں اور وہ اس کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ اگر میرے نام کے ساتھ آپ کا نام ہے تو یہ میری مجبوری ہے، میری ضرورت نہیں۔ مجھے فارن سروس میں لاکر آپ نے میری جو فیور کی، میں وہ لوٹا چکا ہوں۔ اب نہ تو آپ ہی میرے لئے کچھ کریں نہ میں آپ کے لئے کروں گا۔”

<!–nextpage–>

”تم میرے کسی احسان کو لوٹا نہیں سکتے۔ میں نے تمہارے لئے جو کچھ کیا ہے، وہ بہت کم لوگ اپنی اولاد کے لئے کرتے ہیں، اور جو کچھ تم بدلے میں میرے ساتھ کر رہے ہو وہ بھی کوئی اولاد بہت کم کرتی ہے۔”

”آپ نے میرے لئے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جو دنیا سے انوکھا ہو۔”

”میں نے بچپن سے آج تک تمہاری ہر خواہش پوری کی۔ تم پر روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہایا۔ سب سے اچھے انسٹی ٹیوشن میں تمہیں تعلیم دلوائی۔ تمہارا کیرئیر بنا یا اور تم کہتے ہو کہ میں نے تمہارے لئے کچھ نہیں کیا ۔”

”آپ نے مجھ پر یہ ساری انوسٹمنٹ اپنے ہی فائدہ کے لئے کی۔ مجھ پر روپیہ اس لئے بہایا تاکہ بعد میں آپ میری اچھی قیمت وصول کر سکیں۔ جس طرح اب آپ وصول کرنا چاہ رہے ہیں۔ آپ نے کوئی چیزبھی میری خوشی کے لئے نہیں کی۔ اپنے فائدہ اور نقصان کے لئے سوچ کر کی۔ آپ وہ انسان ہیں جو اپنے علاوہ کسی دوسرے کے لئے کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔ آپ کی ہر سوچ ”میں”سے شروع ہوتی ہے اور” میرے لئے”پر ختم ہو جاتی ہے۔ آپ لوگوں سے تعلق تب تک رکھتے ہیں جب تک وہ آپ کے لئے فائدہ مند رہیں۔ جب ان کی افادیت ختم ہو جاتی ہے تو آپ کے لئے ان کی اہمیت بھی ختم ہو جاتی ہے اور ان لوگوں میں، میں بھی شامل ہوں۔”

اس کی تلخی بڑھتی ہی جارہی تھی۔ جہانگیر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”یہ مت بھولو کہ تم میری فیملی کا حصہ ہو۔”

علیزہ نے عمر کے چہرے پر اضطراب دیکھاتھا۔

”اور آپ بھی یہ نہ بھولیں کہ آپ کبھی فیملی مین ہو ہی نہیں سکتے۔ فیملی آپ کی سب سے آخری ترجیح ہے۔”

اس نے عمر کو انگلی اٹھا کر کہتے ہوئے سنا۔

”میرے بارے میں فتوے دینے کی کوشش مت کرو۔ میں کون ہوں اور کیا ہوں ، میں اچھی طرح سے جانتا ہوں تم صرف اپنے بارے میں ہی بات کرو۔”

”کیوں بات نہ کی جائے آپ کے بارے میں ؟”

”میں تم سے یہاں کوئی فضول بحث کرنے نہیں آیا ہوں۔ مجھے تم سے صرف ایک سوال کا جواب چاہئے اور وہ بھی صرف ہاں میں۔”

ان کا لہجہ بے حد سرد اور خشک تھا۔

”اور میرا جواب ”نہیں” میں ہے!”

وہ اتنا ہی بے خوف تھا۔

جہانگیر اسے چند لمحے سرخ آنکھوں سے گھورتے رہے۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”میں تمہیں اپنی جائیداد سے عاق کر دوں گا۔ میں بھی دیکھوں کہ میری مدد کے بغیر تم کیسے سروائیو کرتے ہو۔”

”مجھے آپ کی جائیداد میں سے کچھ نہیں چاہئے مگر جو کچھ دادا نے آپ کے لئے چھوڑا ہے اس میں سے مجھے میرا حصہ چاہئے۔ خاص طور سے وہ بینک اکاؤنٹ جسے ان کی وصیت کے باوجود بھی میرے حوالے نہیں کیا۔”

”میں تمہیں ایک پیسہ بھی نہیں دوں گا۔”

”میں آپ سے بھیک نہیں مانگ رہا ہوں۔ اپنا حق مانگ رہا ہوں ، وہ سب کچھ مانگ رہا ہوں جو آپ کا ہے ہی نہیں، جو پہلے سے ہی میرا ہے۔”

”کچھ بھی تمہارا نہیں ہے۔”

”کیوں میرا نہیں ہے؟”

وہ یک دم چلایا تھا۔

”تم میری بات نہیں مانو گے تو میں تمہیں کچھ نہیں دوں گا۔ نہ اپنی جائیداد سے نہ پاپا کی جائیداد سے۔”

جہانگیر نے زہریلے لہجہ میں کہا تھا۔

<!–nextpage–>

”میں نے اپنی پوری زندگی میں کسی سے ”نہیں” نہیں سنی، اس لئے مجھے اس لفظ کی عادت ہی نہیں ہے۔ اب تم سے بھی یہ لفظ نہیں سن سکتا۔ بات اگر قیمت چکانے کی کرتے ہو تو ٹھیک ہے پھر تم بھی قیمت چکاؤ۔ تمہیں اپنے آپ پر خرچ کیا جانے والا روپیہ ایک انویسٹمنٹ لگتا ہے تو ٹھیک ہے۔ تم اسے انویسٹمنٹ سمجھو اور پھر مجھے اس پر منافع دو، اس شادی کی صورت میں۔” وہ پھنکارے تھے۔

”اور میں بھی یہ نہیں کروں گا ،کبھی بھی نہیں کروں گا۔ آپ نے مجھ پر جو خرچ کیا، اپنی مرضی سے کیا۔ میں نے آپ سے کچھ بھی خرچ کرنے کے لئے نہیں کہا اور جو آپ نے کیا وہ ہر باپ کرتا ہے۔ آپ نے ایسا خاص کیا کیاجس کی قیمت میں اپ کو چکاؤں؟”

”تم تو مجھے اپنا باپ مانتے ہی نہیں، پھر کس حوالے سے ان ساری لگژریزکو اپنا حق سمجھتے ہو۔ تم میری بات نہیں مانو گے تو میں تمہیں سڑک پر لے آؤں گا اور میں یہ بھی بھول جاؤں گا کہ تم سے کبھی میرا کوئی رشتہ تھا۔”

”میں پھر بھی آپ کی بات نہیں مانوں گا، اور جائیدار میں جومیرا حصہ ہے ، میں وہ بھی لوں گا ۔ جو راستے آپ استعمال کریں گے وہ راستے میرے لئے بھی انجان نہیں ہیں۔”

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”اگر تم یہ شادی نہیں کرتے تو وہ سارا روپیہ لوٹاؤ جو میں نے تم پر خرچ کیا ہے۔ پاپا کی جائیداد سے ملنے والا حصہ بھی ان ہی اخراجات میں آجاتا ہے۔ جو میں نے تم پر کئے تھے، اور اس کے علاوہ جو جتنی رقم تمہیں پے کرنی ہے، وہ میرا وکیل بہت جلد بتا دے گا۔ اگر تم اپنے حصہ کے لئے کورٹ میں جانا چاہتے ہو تو شوق سے جاؤ میں بھی تو دیکھو ں کہ تم کتنے پانی میں ہو۔ جہاں تک تمہارے کیرئیر کی بات ہے تو فارن سروس تو تم نے چھوڑ ہی دی ہے۔ اور تم سوچ رہے ہو کہ تم نے مجھ سے پیچھا چھڑا لیا ہے۔ تم پولیس جوائن کر رہے ہو، اس کے بعد میں تمہیں بتاؤں گا کہ مجھ سے پیچھا چھڑا نا آسان نہیں ہے۔ میری پہنچ جہاں تک ہے تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جس شخص کی بیٹی سے تم شادی کرنے پر انکار کر رہے ہو، وہ شخص میرے پیچھے ہٹ جانے پر تمہیں زندہ گاڑ دے گا۔ کیرئیر کی تو بات ہی نہ کرو۔ اس انکار کے بعد کم از کم اس ملک میں تمہارے لئے کوئی کیریئر ہے نہ ہی کوئی فیوچر۔ باہر تم رہنا نہیں چاہتے اندر میں تمہیں رہنے نہیں دوں گا۔ جاب کے چند ہزار روپوں میں تم گزارہ نہیں کر سکتے میری طرف سے اب دوبارہ تمہیں کسی قسم کی کوئی مدد نہیں ملے گی۔ تم اپنی جاب کے ذریعہ پیسہ بنانے کی کوشش کرنا، اور یہ ہم ہونے ہی نہیں دیں گے، اور پھر ایک سال کے اندر اندر تم میرے پاس معافی مانگنے آؤ گے۔ تب تم میری ہر بات ماننے کے لئے تیار ہو گے لیکن اس وقت میں تم پر تھوکوں گا بھی نہیں اس کے بجائے تمہیں ٹھوکر ماروں گا۔ یہ ہے تمہارا برائٹ فیوچر جسے حاصل کرنے کے لئے تم فارن سروس چھوڑ کر یہاں آگئے ہو۔”

انکل جہانگیر کے لہجہ میں بے حد زہر تھا۔ علیزہ ساکت کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ نانو اس وقت بالکل ہی خاموش تھیں اور عمر……عمر کے چہرے پر تو اس وقت وحشت کے علاوہ اور کچھ دیکھ نہیں رہی تھی۔  وہ خاموشی سے گہرے سانس لے رہا تھا ، مگر اس کی سرخ آنکھیں اور بھینچے ہوئے ہونٹ اسے پر سکون ظاہر نہیں کر رہے تھے۔

<p style=”text-align: right;”><script async src=”//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js”></script>

<ins class=”adsbygoogle” style=”display: block; text-align: center;” data-ad-layout=”in-article” data-ad-format=”fluid” data-ad-client=”ca-pub-6783714463104276″ data-ad-slot=”5274812560″></ins>

<script>

     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

</script>

”آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس بار آپ سے پیچھا چھڑانے کے لئے میں کس حد تک جا سکتا ہوں۔” وہ غرایا۔

”میں تمہارے لئے کوئی جائے فرار ہی نہیں چھوڑوں گا۔”

”جہانگیر نے اتنے ہی سرد لہجہ میں کہاتھا۔

”آپ ہر راستہ بند نہیں کر سکتے کوئی نہ کوئی راستہ تو ہر انسان کے پاس ہوتاہے۔ میرے پاس بھی ہے۔”

علیزہ نے اسے الٹے قدموں سے پیچھے جاتے اور کہتے ہوئے سنا تھا۔اس نے انکل جہانگیر کے چہرے پر ایک زہریلی مسکراہٹ دیکھی تھی اور پھر……پھر اس نے عمر جہانگیر کو بجلی کی سی تیزی سے سائیڈ ٹیبل کی دراز کھولتے اور ریوالور نکالتے دیکھا تھا۔ اگلے ہی لمحے اس نے اپنے وجود کو خوف سے سردہوتے پایاتھا۔

”عمر……!”

اس کے حلق سے بے اختیار چیخ نکلی تھی ۔ وہ اب بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ ریوالور کا سیفٹی کیچ ہٹا رہا تھا۔

eeeeeee

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!