امر بیل ۔قسط ۵۔ عمیرہ احمد
باب12
وہ نانو کے پیچھے ان کے بیڈ روم میں داخل ہو گئی تھی۔
”بیٹھو۔”
نانو نے اندر داخل ہوتے ہی اس سے کہا تھا۔ وہ خاموشی سے صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔ نانو خود اپنے بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
”تم نے عمر سے کیا کہا تھا؟”
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد انہوں نے اسی اکھڑے ہوئے لہجے میں اس سے پوچھا تھا۔
”میں نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا ۔یہ سب کچھ عمر ہی کا کیا دھرا ہے۔” اس نے نانو کے سوال پر سوچا تھا۔
”میں سمجھی نہیں نانو!”
”میں نے اتنا مشکل سوال تو نہیں پوچھا۔ صرف یہی پوچھا ہے کہ تم نے عمر کو کیا کہا تھا۔”
”نانو کس بارے میں؟”
”اس گھر سے چلے جانے کے بارے میں !”
علیزہ بالکل ساکت ہو کر رہ گئی۔
”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں نانو ، میں نے اس سے کیا کہا ہے؟”
”تمہاری وجہ سے وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ میں نے اس سے کیا کہا ہے؟”
اس بار نانو کا لہجہ پہلے سے بھی زیادہ تلخ تھا۔
وہ حیرانی سے ان کاچہرہ دیکھتی رہی۔
”نانو میں نے اس سے گھر چھوڑنے کے لئے نہیں کہا، آئی سوئیر! میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔”
وہ روہانسی ہو گئی تھی۔
”تو پھر وہ کسی وجہ کے بغیر ہی گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔”
اس با ر نانو کا لہجہ طنزیہ تھا۔
”مجھے نہیں پتہ کہ وہ کیوں گھر چھوڑ گیا ہے۔، بٹ بلیو می نانو! کہ میں نے اسے گھر چھوڑنے کے لئے نہیں کہا۔ میں آخر اس سے ایسی بات کیوں کہتی۔”
وہ اپنی صفائی دینے کی کوشش کر رہی تھی۔
“تم نے اسے گھر چھوڑنے کے لئے نہیں کہا مگر تم نے ایسے حالات پیدا کردئیے کہ وہ یہاں نہیں رہے۔”
وہ نانو کے اس الزام پر ہکا بکا رہ گئی۔
”نانو میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا!”
”میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا علیزہ کہ تم اس طرح کی حرکتیں کرو گی۔ تم نے میری ساری عمر کی محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔”
”نانو پلیز ! آپ اس طرح مت کہیں۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے عمر گھر چھوڑ کر چلا گیا ہو۔”
”علیزہ ! میں نے اس سے بات کی تھی ، تمہارا کیا مطلب ہے، میں نے اسے ایسے ہی جانے دیا ہے، اسی نے مجھے بتایا تھا کہ تمہیں اس کا یہاں رہنا پسند نہیں ہے اور وہ یہاں رہ کر خوامخواہ کی ٹینشن کھڑی نہیں کرنا چاہتا، اور میں یہی جاننا چاہتی ہوں کہ تمہیں اس کے یہاں رہنے پر کیا اعتراض ہے؟”
نانو نے تیز آواز میں بات کرتے ہوئے کہا تھا۔علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”نانو وہ جھوٹ بولتا ہے۔”
”وہ جھوٹا ہے اور تم؟”
”نانو ! اس نے آپ سے ایک بات کہہ دی اور آپ نے سوچے سمجھے بغیر اس کی بات کا یقین کر لیا۔ اب میں جب ایکسپلی نیشن دے رہی ہوں تو آپ میری بات ہی سننے کو تیار نہیں ہیں۔”
وہ بالکل روہانسی ہو رہی تھی۔