اگلے دن وہ یونیورسٹی چلی گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی واپسی تک انکل جہانگیر اور عمر کے درمیان جو بات ہونا ہو گی، ہو چکی ہو گی، اور گھر کا اعصاب شکن ماحول بدل چکا ہو گا۔ مگر سہ پہر کو واپسی پر اسے پتہ چلا تھاکہ عمر صبح ہی کہیں چلا گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا۔ انکل جہانگیر کا پارہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا اور نانو کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔
عمر شام کے وقت واپس آیا تھا اور اس بار انکل جہانگیر نے وقت ضائع کئے بغیر اس سے بات کرنی شروع کر دی۔ وہ لاؤنج میں ہی بیٹھے ہوئے تھے اور علیزہ چند منٹ پہلے ہی انہیں چائے دیکر آئی تھی۔
”میں آپ کو کل بھی بتا چکا ہوں کہ مجھے آپ سے کوئی بھی بات نہیں کرنی۔”
عمر نے لاؤنج میں کھڑے کھڑے ہاتھ اٹھا کر کہاتھا۔
”عمر ! اس طرح……!”
عمر نے نانو کو بات بھی مکمل نہ کر نے دی تھی۔
”گرینی ! میں یہاں اس لئے آیا ہوں تاکہ کچھ دن سکون سے گزار سکوں۔اگر یہ ممکن نہیں ہے تو پھر میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔”
یہ کہہ کر وہ لاؤنج سے نکل گیا نانو نے اسے آواز دی تھی مگر اس نے ان کی آواز کو نظر انداز کر دیا تھا۔
”علیزہ ! جاؤ اس سے جا کر کہو کہ آکر چائے تو پی لے۔”
نانو نے علیزہ سے کہا۔ وہ اٹھ کر عمر کے کمرے کی طرف آگئی تھی۔ دستک کی آواز سنتے ہی اندر سے عمر نے آوازدی تھی۔
علیزہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی تھی۔ وہ اپنے گلے میں بندھی ہوئی ٹائی کھول رہا تھا۔ علیزہ نے نانو کا پیغام اسے پہنچا دیا تھا۔
”نہیں، مجھے چائے نہیں پینی!”
اس نے بڑی ترشی سے کہا۔
علیزہ نے اس کے چہرے پر تھکن کے آثا ر دیکھے تھے۔ اس کی آنکھوں میں سرخی تھی۔ شاید وہ رات کو دیر سے سویا تھا۔ علیزہ کو بے اختیار اس پر ترس آگیا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ انکل جہانگیر کو یہاں سے واپس بھیج دے۔
”اگر وہ بات نہیں کرنا چاہتا تو نانو اور انکل اسے کیوں مجبور کر رہے ہیں؟”
اس نے خود ہی جانب داری سے سوچاتھا۔
”میں چائے یہاں لے آؤں ؟”
علیزہ نے ہمدردی سے اس سے پوچھاتھا۔
”نہیں ! ضرورت نہیں ہے !”
اس نے بڑی رکھائی سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اسی خاموشی سے کمرے سے باہر نکل آئی۔
”وہ چائے پینا ہی نہیں چاہتا!”
اس نے لاؤنج میں آکر کہاتھا۔
”وہ میرا سامنا کرنا نہیں چاہتا، آپ دیکھ رہی ہیں کہ وہ میرے ساتھ کیا کر رہا ہے۔”
اس نے انکل جہانگیر کا چہرہ سرخ ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔
”علیزہ ! تم اس سے جاکر کہو کہ میں بلا رہی ہوں۔”
نانو نے انکل جہانگیر کو جواب دینے کے بجائے اس سے کہاتھا۔ وہ ایک بار پھر واپس پلٹ گئی تھی۔ اسے اپنے پیچھے انکل جہانگیر کی آواز سنائی دی تھی وہ ایک بار پھر نانو سے کچھ کہہ رہے تھے۔