”وہ تمہیں کیوں استعمال کرے گا تم تو اس کے بیٹے ہو۔ ہر باپ اپنی اولاد کی شادی کے بارے میں سوچتا ہے۔ ہر باپ اپنی اولاد کی خوشی چاہتا ہے۔”
”ہر باپ نہیں گرینی ! ہر باپ نہیں۔ کچھ باپ آپ کے بیٹے جیسے بھی ہوتے ہیں جو صرف اپنے بارے ہی میں سوچتے ہیں۔ صرف اپنی خوشی کا ہی خیال رکھتے ہیں۔یہ جس سیاستدان کی بیٹی سے میری شادی کرنا چاہتے ہیں، میں اس سے شادی کرنا نہیں چاہتا۔ اگر بات خوشی کی ہی ہے تو میں وہاں شادی کرکے خوش نہیں رہ سکتا۔ یہ میری خوشی کی خاطر مجھے مجبور نہ کریں مگر گرینی! بات خوشی کی نہیں ہے۔ بات قیمت کی ہے۔ انہیں میری بہت اچھی قیمت مل رہی ہے اور یہ مجھے بیچ دینا چاہتے ہیں۔”
”عمر ! تم غلط کہہ رہے ہو۔”
نانو نے اس کی بات کے جواب میں کہاتھا۔
”میں غلط کہہ رہا ہوں؟”
عمر استہزائیہ انداز میں ہنساتھا۔
”گرینی ! میں غلط نہیں کہہ رہا اور آپ اپنے بیٹے کو مجھ سے زیادہ نہیں جانتیں۔”
”عمر ! تمہیں کس بات پر اعتراض ہے۔ جہانگیر بتا رہا تھا کہ وہ لڑکی خوبصورت ہے، تعلیم یافتہ ہے۔ اس کا باپ منسٹر ہے، اس ملک کے چند نامی گرامی خاندانوں میں سے ایک ہے۔ تمہیں اور کیا چاہئے ہے ، اس لڑکی سے شادی کر کے تمہارا اپنا کیرئیر بن جائے گا۔”
”مجھے کیرئیر نہیں بنانا ہے۔ مجھے کسی نامی گرامی خاندان کا حصہ نہیں بننا ہے۔ مجھے صرف آزادی چاہئے آدھی زندگی باپ کے اشاروں پر ناچتے ہوئے گزار دی باقی کی زندگی بیوی اور اس کے خاندان کے اشاروں پر ناچتے ہوئے نہیں گزارنا چاہتا۔ جس لڑکی کی خوبصورتی اور تعلیم کے بارے میں یہ آپ کو بتا رہے ہیں اس کے بارے میں ، میں سب کچھ جانتا ہوں۔ اس کے کتنے بوائے فرینڈز ہیں اور اس کا باپ اسے مجھ سے کیوں بیاہنا چاہتا ہے میں یہ بھی جانتا ہوں۔”
”عمر ! فضول باتیں مت کرو۔ تمہارا باپ تمہار ے لئے کسی برے کیریکٹر کی لڑکی کا انتخاب کیوں کرے گا۔ تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔”
”سامنے کھڑے ہیں یہ آپ کے، اس لڑکی کے بارے میں مجھ سے بھی زیادہ جانتے ہوں گے ، آپ ان ہی سے پوچھ لیں۔ مجھ پر تو آپ کو یقین ہی نہیں ہے تو ان سے پوچھیں کہ وہ کتنی باکردار لڑکی ہے۔”
اس نے تلخ لہجہ میں کہتے ہوئے باپ کی طرف اشارہ کیاتھا۔
”تم کتنے باکردار ہو؟”
جہانگیر نے سرد لہجے میں اس سے پوچھا۔
”اگر تم اس لڑکی کے بارے میں سب کچھ جانتے ہو تو میں بھی تمہارے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔”
”آپ مجھ سے باکردار ہونے کے بارے میں سوال کیسے کر سکتے ہیں ، آپ تو یہ سوال کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ میرا کردار اچھا نہیں ہے تو اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ فارن آفس کے ایک چپڑاسی کے سامنے بھی آپ کا نام لیا جائے گا۔ تو وہ آپ کا کریکٹر سر ٹیفکیٹ پیش کر دے گا۔”
وہ اب آپے سے بالکل باہر ہو چکا تھا۔
”تم جس ماں کے بیٹے ہو تم سے میں یہی سب کچھ توقع کر سکتا ہوں۔”
انکل جہانگیر اب بپھر اٹھے تھے۔