”تم میرے کسی احسان کو لوٹا نہیں سکتے۔ میں نے تمہارے لئے جو کچھ کیا ہے، وہ بہت کم لوگ اپنی اولاد کے لئے کرتے ہیں، اور جو کچھ تم بدلے میں میرے ساتھ کر رہے ہو وہ بھی کوئی اولاد بہت کم کرتی ہے۔”
”آپ نے میرے لئے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جو دنیا سے انوکھا ہو۔”
”میں نے بچپن سے آج تک تمہاری ہر خواہش پوری کی۔ تم پر روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہایا۔ سب سے اچھے انسٹی ٹیوشن میں تمہیں تعلیم دلوائی۔ تمہارا کیرئیر بنا یا اور تم کہتے ہو کہ میں نے تمہارے لئے کچھ نہیں کیا ۔”
”آپ نے مجھ پر یہ ساری انوسٹمنٹ اپنے ہی فائدہ کے لئے کی۔ مجھ پر روپیہ اس لئے بہایا تاکہ بعد میں آپ میری اچھی قیمت وصول کر سکیں۔ جس طرح اب آپ وصول کرنا چاہ رہے ہیں۔ آپ نے کوئی چیزبھی میری خوشی کے لئے نہیں کی۔ اپنے فائدہ اور نقصان کے لئے سوچ کر کی۔ آپ وہ انسان ہیں جو اپنے علاوہ کسی دوسرے کے لئے کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔ آپ کی ہر سوچ ”میں”سے شروع ہوتی ہے اور” میرے لئے”پر ختم ہو جاتی ہے۔ آپ لوگوں سے تعلق تب تک رکھتے ہیں جب تک وہ آپ کے لئے فائدہ مند رہیں۔ جب ان کی افادیت ختم ہو جاتی ہے تو آپ کے لئے ان کی اہمیت بھی ختم ہو جاتی ہے اور ان لوگوں میں، میں بھی شامل ہوں۔”
اس کی تلخی بڑھتی ہی جارہی تھی۔ جہانگیر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”یہ مت بھولو کہ تم میری فیملی کا حصہ ہو۔”
علیزہ نے عمر کے چہرے پر اضطراب دیکھاتھا۔
”اور آپ بھی یہ نہ بھولیں کہ آپ کبھی فیملی مین ہو ہی نہیں سکتے۔ فیملی آپ کی سب سے آخری ترجیح ہے۔”
اس نے عمر کو انگلی اٹھا کر کہتے ہوئے سنا۔
”میرے بارے میں فتوے دینے کی کوشش مت کرو۔ میں کون ہوں اور کیا ہوں ، میں اچھی طرح سے جانتا ہوں تم صرف اپنے بارے میں ہی بات کرو۔”
”کیوں بات نہ کی جائے آپ کے بارے میں ؟”
”میں تم سے یہاں کوئی فضول بحث کرنے نہیں آیا ہوں۔ مجھے تم سے صرف ایک سوال کا جواب چاہئے اور وہ بھی صرف ہاں میں۔”
ان کا لہجہ بے حد سرد اور خشک تھا۔
”اور میرا جواب ”نہیں” میں ہے!”
وہ اتنا ہی بے خوف تھا۔
جہانگیر اسے چند لمحے سرخ آنکھوں سے گھورتے رہے۔
”میں تمہیں اپنی جائیداد سے عاق کر دوں گا۔ میں بھی دیکھوں کہ میری مدد کے بغیر تم کیسے سروائیو کرتے ہو۔”
”مجھے آپ کی جائیداد میں سے کچھ نہیں چاہئے مگر جو کچھ دادا نے آپ کے لئے چھوڑا ہے اس میں سے مجھے میرا حصہ چاہئے۔ خاص طور سے وہ بینک اکاؤنٹ جسے ان کی وصیت کے باوجود بھی میرے حوالے نہیں کیا۔”
”میں تمہیں ایک پیسہ بھی نہیں دوں گا۔”
”میں آپ سے بھیک نہیں مانگ رہا ہوں۔ اپنا حق مانگ رہا ہوں ، وہ سب کچھ مانگ رہا ہوں جو آپ کا ہے ہی نہیں، جو پہلے سے ہی میرا ہے۔”
”کچھ بھی تمہارا نہیں ہے۔”
”کیوں میرا نہیں ہے؟”
وہ یک دم چلایا تھا۔
”تم میری بات نہیں مانو گے تو میں تمہیں کچھ نہیں دوں گا۔ نہ اپنی جائیداد سے نہ پاپا کی جائیداد سے۔”
جہانگیر نے زہریلے لہجہ میں کہا تھا۔