”میں نے اپنی پوری زندگی میں کسی سے ”نہیں” نہیں سنی، اس لئے مجھے اس لفظ کی عادت ہی نہیں ہے۔ اب تم سے بھی یہ لفظ نہیں سن سکتا۔ بات اگر قیمت چکانے کی کرتے ہو تو ٹھیک ہے پھر تم بھی قیمت چکاؤ۔ تمہیں اپنے آپ پر خرچ کیا جانے والا روپیہ ایک انویسٹمنٹ لگتا ہے تو ٹھیک ہے۔ تم اسے انویسٹمنٹ سمجھو اور پھر مجھے اس پر منافع دو، اس شادی کی صورت میں۔” وہ پھنکارے تھے۔
”اور میں بھی یہ نہیں کروں گا ،کبھی بھی نہیں کروں گا۔ آپ نے مجھ پر جو خرچ کیا، اپنی مرضی سے کیا۔ میں نے آپ سے کچھ بھی خرچ کرنے کے لئے نہیں کہا اور جو آپ نے کیا وہ ہر باپ کرتا ہے۔ آپ نے ایسا خاص کیا کیاجس کی قیمت میں اپ کو چکاؤں؟”
”تم تو مجھے اپنا باپ مانتے ہی نہیں، پھر کس حوالے سے ان ساری لگژریزکو اپنا حق سمجھتے ہو۔ تم میری بات نہیں مانو گے تو میں تمہیں سڑک پر لے آؤں گا اور میں یہ بھی بھول جاؤں گا کہ تم سے کبھی میرا کوئی رشتہ تھا۔”
”میں پھر بھی آپ کی بات نہیں مانوں گا، اور جائیدار میں جومیرا حصہ ہے ، میں وہ بھی لوں گا ۔ جو راستے آپ استعمال کریں گے وہ راستے میرے لئے بھی انجان نہیں ہیں۔”
”اگر تم یہ شادی نہیں کرتے تو وہ سارا روپیہ لوٹاؤ جو میں نے تم پر خرچ کیا ہے۔ پاپا کی جائیداد سے ملنے والا حصہ بھی ان ہی اخراجات میں آجاتا ہے۔ جو میں نے تم پر کئے تھے، اور اس کے علاوہ جو جتنی رقم تمہیں پے کرنی ہے، وہ میرا وکیل بہت جلد بتا دے گا۔ اگر تم اپنے حصہ کے لئے کورٹ میں جانا چاہتے ہو تو شوق سے جاؤ میں بھی تو دیکھو ں کہ تم کتنے پانی میں ہو۔ جہاں تک تمہارے کیرئیر کی بات ہے تو فارن سروس تو تم نے چھوڑ ہی دی ہے۔ اور تم سوچ رہے ہو کہ تم نے مجھ سے پیچھا چھڑا لیا ہے۔ تم پولیس جوائن کر رہے ہو، اس کے بعد میں تمہیں بتاؤں گا کہ مجھ سے پیچھا چھڑا نا آسان نہیں ہے۔ میری پہنچ جہاں تک ہے تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جس شخص کی بیٹی سے تم شادی کرنے پر انکار کر رہے ہو، وہ شخص میرے پیچھے ہٹ جانے پر تمہیں زندہ گاڑ دے گا۔ کیرئیر کی تو بات ہی نہ کرو۔ اس انکار کے بعد کم از کم اس ملک میں تمہارے لئے کوئی کیریئر ہے نہ ہی کوئی فیوچر۔ باہر تم رہنا نہیں چاہتے اندر میں تمہیں رہنے نہیں دوں گا۔ جاب کے چند ہزار روپوں میں تم گزارہ نہیں کر سکتے میری طرف سے اب دوبارہ تمہیں کسی قسم کی کوئی مدد نہیں ملے گی۔ تم اپنی جاب کے ذریعہ پیسہ بنانے کی کوشش کرنا، اور یہ ہم ہونے ہی نہیں دیں گے، اور پھر ایک سال کے اندر اندر تم میرے پاس معافی مانگنے آؤ گے۔ تب تم میری ہر بات ماننے کے لئے تیار ہو گے لیکن اس وقت میں تم پر تھوکوں گا بھی نہیں اس کے بجائے تمہیں ٹھوکر ماروں گا۔ یہ ہے تمہارا برائٹ فیوچر جسے حاصل کرنے کے لئے تم فارن سروس چھوڑ کر یہاں آگئے ہو۔”
انکل جہانگیر کے لہجہ میں بے حد زہر تھا۔ علیزہ ساکت کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ نانو اس وقت بالکل ہی خاموش تھیں اور عمر……عمر کے چہرے پر تو اس وقت وحشت کے علاوہ اور کچھ دیکھ نہیں رہی تھی۔ وہ خاموشی سے گہرے سانس لے رہا تھا ، مگر اس کی سرخ آنکھیں اور بھینچے ہوئے ہونٹ اسے پر سکون ظاہر نہیں کر رہے تھے۔
”آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اس بار آپ سے پیچھا چھڑانے کے لئے میں کس حد تک جا سکتا ہوں۔” وہ غرایا۔
”میں تمہارے لئے کوئی جائے فرار ہی نہیں چھوڑوں گا۔”
”جہانگیر نے اتنے ہی سرد لہجہ میں کہاتھا۔
”آپ ہر راستہ بند نہیں کر سکتے کوئی نہ کوئی راستہ تو ہر انسان کے پاس ہوتاہے۔ میرے پاس بھی ہے۔”
علیزہ نے اسے الٹے قدموں سے پیچھے جاتے اور کہتے ہوئے سنا تھا۔اس نے انکل جہانگیر کے چہرے پر ایک زہریلی مسکراہٹ دیکھی تھی اور پھر……پھر اس نے عمر جہانگیر کو بجلی کی سی تیزی سے سائیڈ ٹیبل کی دراز کھولتے اور ریوالور نکالتے دیکھا تھا۔ اگلے ہی لمحے اس نے اپنے وجود کو خوف سے سردہوتے پایاتھا۔
”عمر……!”
اس کے حلق سے بے اختیار چیخ نکلی تھی ۔ وہ اب بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ ریوالور کا سیفٹی کیچ ہٹا رہا تھا۔