Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”آپ کو عمر کی ہر جھوٹی بات پر یقین آجاتا ہے مگر میری بات پر یقین نہیں ہے۔”
”عمر جھوٹ نہیں بولتا!”
نانو کے جملے نے اس کی رنجیدگی میں اضافہ کر دیاتھا۔
”اور میں……آپ سمجھتی ہیں کہ میں جھوٹ بولتی ہوں؟”
”مجھے تم سے فضول بحث نہیں کرنی۔ میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ تمہیں عمر کا یہاں رہنا کیوں پسند نہیں ہے؟”
”نانو ! میں نے آپ سے کتنی بار کہا ہے کہ مجھے اس کے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اسے ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ، یہاں تو بہت سے لوگ آتے اور رہتے ہیں ، کیا میں نے پہلے کبھی کسی کے رہنے پر اعتراض کیا ہے پھر اب عمر کے رہنے پر کیوں کروں گی۔”
اس نے ایک کے بعد ایک وضاحت دیتے ہوئے کہاتھا۔
”آپ اسے دوبارہ واپس بلا لیں۔”
نانو کچھ دیر اسے دیکھتی رہی تھیں۔



”وہ اب یہاں واپس نہیں آئے گا۔ یہ بات صاف صاف کہہ کر گیا ہے ، کم از کم رہنے کے لئے تو دوبارہ واپس نہیں آئے گا۔”
”آپ بتائیں نانو! اس میں میرا کیا قصور ہے۔ وہ اپنی مرضی سے یہاں ایا۔ اپنی مرضی سے واپس یہاں سے چلا گیا۔ اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔”
”اگر تم اس کے ساتھ وہ سلوک نہ کرتیں جو تم نے کیا تو شاید وہ اس طرح سے یہاں سے نہ جاتا۔” نانو ابھی بھی اپنی بات پر جمی ہوئی تھیں۔
”میں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ نانو! میں نے تو اس کے ساتھ کوئی برا سلوک نہیں کیا۔”
”علیزہ ! تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے، مجھے کم از کم تم سے اس طرح کے رویے کی توقع نہیں تھی۔ اتنے سالوں سے میں اتنی محبت سے تمہاری پرورش کرتی رہی ہوں اور تم نے چند ہفتے میں اس ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ کیا سوچتا ہو گا عمر کہ میں نے تمہیں اس طرح کی تربیت دی ہے اور جب وہ جا کر اپنے باپ سے اس بات کا ذکر کرے گا تو جہانگیر میرے اور تمہارے بارے میں کیا سوچے گا۔ یہ گھر صرف تمہارا نہیں، ان سب کا بھی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ یہاں بہت کم آکر رہتے ہیں مگر نہ رہنے سے اس گھر پر ان کا حق تو ختم نہیں ہو جاتا۔ عمر ہو یا تمہارا کوئی اور کزن، تمہیں کوئی اختیار حاصل نہیں کہ تم ان کے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض کر ویا اپنی ناپسندیدگی کا اظہار اپنے رویے سے کرو۔”
وہ چپ چاپ نانو کی باتیں سنتی رہی تھی۔ نانو بہت دفعہ اسے ڈانٹ دیا کرتی تھیں مگر آج ان کا رویہ بہت زیادہ سخت تھا۔ جس طرح آج وہ اس سے بات کر رہی تھیں۔اس طرح سے انہوں نے پہلے کبھی نہیں کی تھی۔
”عمر کے ساتھ تو خیر جو کچھ تم نے کیا سو کیا مگر آئندہ یہ حرکت پھر کبھی مت کرنا۔ تم اب بچی نہیں ہو جسے ساری باتیں سمجھانا پڑیں۔ بڑی ہو چکی ہو، ہر چیز سمجھ سکتی ہو۔ بہتر ہے کہ اپنے رویے کو ٹھیک کرو۔اب جاؤ یہاں سے۔ مجھے کچھ کام ہے۔”
انہوں نے ایک لمبے چوڑے وعظ کے بعد بات ختم کردی وہ شاک کی حالت میں ان کے بیڈ روم سے نکل کر آئی تھی۔



”سارا قصور صرف میرا ہے اور کسی کا نہیں۔ عمر کا بھی نہیں۔ اس کے یہاں سے چلے جانے کی وجہ سے میری ہر خوبی خامی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ نانو کو میں بد تمیز لگنے لگی ہوں۔ عمر کی نانو کو پرواہ ہے ،میری نہیں!”
وہ اپنے بیڈ روم کی طرف جاتے ہوئے کچھ اور ہی دل گرفتہ ہو گئی تھی۔
”میری کسی کو ضرورت ہی نہیں ہے۔ ممی کو نہیں، پاپا کو نہیں، نانو کو بھی نہیں، ضرورت تو عمر جیسے بندے کی ہوتی ہے۔ جس کی دنیا میں کوئی ویلیو ہو۔”
اس کی رنجیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
”کس قدر فراڈ انسان ہے۔ مجھ سے اور طرح کی باتیں کرتا تھا اور میرے جاتے ہی یہاں چکر چلانے شروع کر دئیے مجھے اپنا دوست کہہ کراس نے میرے ساتھ ایسے کیا۔”
اور عمر جہانگیر کے لئے اس کی ناپسندیدگی میں کچھ اور ہی اضافہ ہوگیاتھا۔
دوپہر کو مرید کے بلانے پر بھی وہ لنچ کے لئے نہیں آئی ، اس کا خیال تھا کہ نانو اسے آکر خود ہی لنچ کے لئے کہیں گی ، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نانو نے اسے دوبارہ لنچ کے لئے نہیں کہا اور وہ بھی اپنے کمرے سے نہیں نکلی۔
شام کو سو کر اٹھنے کے بعد وہ نہانے کے لئے باتھ روم میں چلی گئی۔ اس وقت اسے واقعی بھوک لگ رہی تھی نہانے کے بعد نیم دلی سے وہ اپنے کمرے سے نکل آئی تھی۔ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی کانوں میں پڑنے والی آواز سے اس کا خون کھولنے لگا تھا۔ وہ عمر کی آواز تھی۔ اگر وہ لاؤنج میں داخل نہ ہوئی ہوتی اور نانو اور عمر نے اسے نہ دیکھا ہوتا تو وہ وہیں سے واپس اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ اس وقت وہ کسی صورت بھی عمر کی شکل دیکھنا نہیں چاہتی تھی مگر لاؤنج میں داخل ہوتے ہی عمر کی نظر اس پر پڑ گئی تھی۔ نہ صرف اس نے علیزہ کو دیکھ لیا تھا، بلکہ فوراً اسے مخاطب بھی کیاتھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!