اس نے کچھ اور کہنے کی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے اس کی بات نہیں سنی تھی۔ علیزہ کو ایک بار پھر اپنا آپ بیک گراؤنڈ میں جاتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ یوں لگ رہا تھا وہاں صرف عمر اور نانا، نانو ہی تھے، کوئی چوتھا شخص نہیں۔ کسی چوتھے شخص کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ نانا کی پوری توجہ اب عمر پر مرکوز تھی۔ وہ ملول ہونے لگی تھی۔
خانساماں نے کھانا لگا دیا تھا اور علیزہ نے بڑی خاموشی کے ساتھ کھانا کھا یا تھا۔ عمر کے ساتھ ٹیبل پر اس کی دوبارہ کوئی بات نہیں ہوئی تھی ، نہ ہی وہ اس کی طرف متوجہ تھا۔ وہ نانا سے باتوں میں مشغول تھا،اور کھانا کھانے کے بعد نانا کپڑے بدلنے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ نانو کافی بنانے کے لئے کچن میں گئی تھیں اور ان کے جانے کے بعد عمر بھی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ علیزہ ڈائننگ ٹیبل پر بالکل اکیلی بیٹھی رہ گئی تھی۔ بڑی بے دلی کے ساتھ وہ اپنی پلیٹ میں موجود کھانا کھاتی رہی۔ پھر یک دم پلیٹ چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
عمر کے کمرے کے دروازے پر دستک دینے سے پہلے وہ ہچکچائی تھی پھر اس نے دروازے پر دستک دی۔
”یس کم ان!”
اندر سے عمر کی آواز ابھری تھی۔
وہ آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ عمر کارپٹ پر ایک بیگ کھولے کچھ چیزیں اس میں رکھنے میں مصروف تھا۔ علیزہ کو دیکھ کر کچھ حیران ہواتھامگر پھر اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔
”آؤ علیزہ !” وہ بدستور اپنے کام میں مصروف تھا۔
”بیٹھ جاؤ!” ایک بار پھر علیزہ کو دیکھتے ہوئے کہاتھا۔
”میں بیٹھنے کے لئے نہیں آئی۔” اس نے خفگی سے کہا تھا۔
وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا تھا اور پھر ہولے سے ہنس دیا۔ ”اچھا۔” وہ ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا۔
”آپ نے نانو سے میرے بارے میں کیا کہا ہے؟” اس نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
”کچھ بھی نہیں!”
”آپ جھوٹ بول رہے ہیں ، آپ نے نانوسے کہا کہ میں نے آپ کو اس گھر سے جانے کے لئے کہا ہے۔”
”کم آن علیزہ ! میں نے ایسا کچھ نہیں کہا!”
اس بار اس نے ایک بار پھر بڑے پر سکون اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
”آپ نے نانو سے کہا کہ میں یہاں آپ کا رہنا پسند نہیں کرتی۔”
”ہاں یہ میں نے کہا تھا۔” اس کا لہجہ اب بھی پر سکون تھا۔
”آپ نے یہ کیوں کہا تھا؟” وہ تیز آواز میں بولی تھی۔
”کیا میں نے غلط کہا ہے؟” اس نے بہت سیدھا سوال کیا گیا تھا۔ وہ چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہی ۔ وہ اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
”آپ نے نانو کو میرے خلاف کر دیا ہے۔” وہ کتابوں کے شیلف کی طرف جاتے جاتے مڑا تھا۔ ”میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔”
”آپ نے کیا ہے!”
”میں نے جو کچھ بھی کیا ہے، وہ تمہاری خوشی اور convenience (سہولت) کے لئے کیا ہے اور اس میں گرینی کو تمہارے خلاف کر نے کی احمقانہ حرکت شامل نہیں ہے۔” وہ اب کتابیں شیلف پر سے اٹھا رہا تھا۔
”آپ کی وجہ سے نانو مجھ سے ٹھیک سے بات بھی نہیں کر رہیں!” اس بار وہ روہانسی ہو گئی تھی۔
اس نے مڑ کر علیزہ کو دیکھا تھا اور پھر بڑی نرمی سے کہا تھا۔ ”وہ اگر ایسا کر رہی ہیں تو غلط کر رہی ہیں، میں ان سے بات کروں گا۔”
”آپ کو اب ان سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں آپ کو بہت اچھی طرح سے سمجھ چکی ہوں، You are a crook”
اس بار اس کے ریمارکس پر پہلی بار عمر کے ماتھے پر کچھ بل آئے تھے مگر اس نے کچھ کہا نہیں تھا، صرف خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔
”آپ صرف نانو کو یہ بتائیں کہ میں نے آپ سے یہاں رہنے کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا،نہ ہی میں نے آپ کے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض کیا ہے۔”
وہ اب بھی خاموش تھا۔